عوامی مزاج کیخلاف حکمران زور زبردستی اپنی مرضی مسلط کریں تو اسے آمریت کہا جاتا ہے، موجودہ حکومت اس کے علاؤہ آئین کو بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں، ایسی حکومت کیلئے سول مارشل لاء حکومت کے علاؤہ کوئی دوسرا موزوں نام ہو تو بتائیے۔ سپریم کورٹ کے مدمقابل آن کھڑے ہوئے ہیں، اب کوئی کسر باقی رہ گئی ہے کہ سول مارشل لاء حکومت کا نام اسے نہ دیں۔ پاکستان بار کونسل نے جوڈیشل ریفارمز بل کو سپریم کورٹ میں قابل سماعت قرار دینے اور لارجر بینچ کی تشکیل کے خلاف وکلاء کو ملک بھر کی عدالتوں میں پیش نہ ہوتے ہوئے ہڑتال کی کال دی، جسے وکلاء باڈیز کسی خاطر میں نہیں لائیں، ملک بھر میں زیادہ تر عدالتوں میں وکلاء پیش ہوئے، اس کی بنیادی وجہ بہت مختلف ہے؛ پاکستان بار کونسل حکومت کے زیادہ قریب سمجھی جاتی ہے جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنز وغیرہ میں اس وقت زیادہ تر حامد خان گروپ موجود ہے، وکلاء بھی پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں، لہذا حکومت کی حمایت میں سپریم کورٹ کی مخالفت مسترد کر دی گئی اور اس طرح سے حکومت وکلاء کے ذریعے سپریم کورٹ پر جو یلغار کرنا چاہتی تھی، وہ ناکام ہوئی جبکہ دوسری جانب وکلا معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ کی سربراہی میں حکومت کے سپریم کورٹ کے خلاف اقدامات کو روکنے کیلئے ایک بڑی تحریک کیلئے پر تول رہے ہیں، وطن عزیز کے باخبر حلقوں کی مانند وکلاء جان چکے ہیں کہ 13 جماعتوں کی مرکب حکومت عدلیہ سے محاذ آرائی میں کسی بھی حد تک جائیگی، یہی وجہ پاکستان بار کونسل کی کال کی ناکامی بنی، اب ایک طرف وکلاء آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے تحفظ کیلئے کمربستہ ہو رہے ہیں تو دوسری طرف مہنگائی، لاقانونیت، حکومت کا سیاسی مخالفین کیخلاف حد سے زیادہ ریاستی مشینری کا استعمال وکلاء تحریک کو مزید وسعت دینے کے غماز بن چکے ہیں۔ عام آدمی ایسی کسی بھی تحریک کا حصہ بننے کیلئے سمجھیں تیار بیٹھا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی انتخابات نہ ہونے کی صورت میں اسے حکمرانوں کی آئین شکنی کا نام دیکر تحریک چلانے کا متعدد مرتبہ اعلان کر چکے ہیں۔ گویا حکومت کے پاؤں اکھڑ جائیں گے۔ یہ بات طے ہوچکی، کیسا طرفہ تماشا ہے کہ حکومت بل منظور کرنے اور قانون سازی کو آئینی ترمیم کے متوازی بنا کر پیش کرنے پر مسلسل تلی بیٹھی ہے، کیا عدالتی لارجر بینچ کے خلاف قرارداد درست تھی؟ کیا اسمبلی فلور سے پنجاب کے انتخابات کیلئے 21 ارب کے فنڈز مہیا نہ کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے ڈرامائی انداز میں منظور کرنا ضروری تھی؟ اس پر اسحاق ڈار کیوں خاموش رہے؟ قبل ازیں متواتر کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ملک کی معیشت کے ڈیفالٹ ہونے کی باتیں کرنے والے ملک دشمنی کر رہے ہیں۔ ویسے سیکرٹری پٹرولیم نے بھی خوفناک انکشاف کر دیا ہے، فرماتے ہیں: ملک مسلسل ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہا ہے، بیرونی سرمایہ کار تیزی سے پاکستان میں اپنے اثاثے فرخت کر رہے ہیں، شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں کہ 13 جماعتوں کی حکومت نے معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ مزید اور مسلسل نکال رہے ہیں مگر خمار ایسا کہ اقتدار سے الگ ہونے کو تیار نہیں۔ صد حیف آئین کو بھی ماننے کیلئے تیار نہیں، ان سے کسی بہتری کی امید نہیں رہی، یہ عدلیہ سے محاذ آرائی میں یقیناً ہر حد تک جائینگے اور آخر کار گھر جانا ان کا مقدر ٹھہرے گا، ذرا سوچئے کہ کیا اس وقت ایمرجنسی کی بازگشت بلاجواز ہے؟ آئین کے مطابق ایمرجنسی کے نفاذ کا اختیار صدر مملکت کو ہے، حکمران صدر ڈاکٹر عارف علوی کو تحریک انصاف کا کارکن اور تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کرنے کے طعنے دیتے ہیں، کیا ایسے حکمران کل کلاں ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے پارلیمنٹ کے کسی مشترکہ اجلاس کو ڈھال بنا کر اس ضمن میں کسی آئین شکنی کے مرتکب نہیں ہوسکتے؟ یقینا ان سے ہراقدام کی توقع خارج از امکان نہیں، بیشتر ذرائع یہاں تک قیاس کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت اگست میں اپنی پانچ سالہ مدت یعنی قومی اسمبلی مدت پوری ہونے پر بھی کسی بل، قرارداد وغیرہ کا سہارا لے کر ستمبر میں صدر مملکت اور چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت مکمل ہونے کا انتظار کر سکتے ہیں اور پھر قائم مقام صدر مملکت جو کہ چئیرمن سینٹ ہونگے، ان سے ملکر ایمرجنسی جیسا کوئی اپنا شوق پورا کرتے ہوئے کسی نہ کسی نام پر معاشی بحرانوں کو جواز بنا کر اقتدار سے چمٹے رہیں گے کیونکہ پنجاب اور کے پی کے کی حکومتیں ان دونوں صوبوں میں انتخابات اگر منعقد نہیں ہوتے تو موجود نہیں ہونگی، ان حالات میں سپریم کورٹ کا آئین کی عملداری کے تناظر میں کردار بہت اہم ہے، وزیراعظم شہباز شریف پارلیمنٹ کی قراردادوں اور بلوں کے پیچھے پناہ گزیں ہونے کی جستجو میں مگن ہیں ۔ سپریم کورٹ نے اگر آئین و قانون کی حکمرانی کا علم بلند رکھتے ہوئے اپنے فرائض ادا کیے تو شائد وزیراعظم کو نااہلی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے، بعض آئینی ماہرین کے مطابق وفاقی کابینہ بھی نااہلی کی زد میں آسکتی ہے، اسی لیے حکمران مسلسل پارلیمنٹ اور عدلیہ کے اختیارات کو گورکھ دھندہ بنا کر الجھا رہے ہیں، حکومت آئینی اختیار کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی ان کے عہدے سے ہٹانے کا آپشن رکھتی ہے لیکن وکلاء برادری کی حمایت حاصل نہ ہونے پر شدید بوکھلاہٹ اور پریشانی کا شکار ہے، حکمرانوں کو 2007 میں عدلیہ سے ہونے والی محاذ آرائی کے محرکات کا جائزہ لیتے ہوئے سبق حاصل کرنا چائیے، اگر وکلاء تحریک زور پکڑ گئی، جس کے واضح آثار ہیں تو معاملات ان کے ہاتھوں سے بھی نکل جائینگے، جن پر حکمران تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیں؛ 1973 کا آئین تمام طبقات کو مدنظر رکھ کر متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا، اس سے آج تک جو بھی حکمران ٹکرایا ہے، چاہے وہ فوجی آمر ہو یا جمہوریت کے لبادے میں چھپے آمر؛ انھیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، آخرکار انتخابات بھی منعقد ہوئے اور انھیں گھر بھی جانا پڑا، حکومت کیلئے بہتر ہے کہ فنڈز ہیں یا نہیں؟ سپریم کورٹ کا کون سا بینچ انھیں پسند ہے یا نہیں؟ اس طرح کی محاذ آرائی سے باہر نکل کر پنجاب اور کے پی کے میں عدالت عظمیٰ کے آئینی فیصلے کے مطابق انتخابات ہونے دے وگرنہ ہماری تاریخ گواہ ہے، انتخابات تو ہونے ہیں، چاہے 11 سالوں بعد ہوں، لہذا جمہوریت پسند بنیں نا کہ جمہوری مارشل لاء حکومت کا داغ اپنے دامن پر سجائیں!!!