امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے کہا ہے کہ بین الاقوامی سیاست شطرنج کا کھیل نہیں جس میں آپ کے پاس بیٹھ کر سوچنے اور چالیں چلنے کا وقت ہوتا ہے۔ بین الاقوامی سیاست تو بلیئرڈ کا کھیل ہے اور آپ کے سامنے گیندوں کا کلسٹر ہوتا ہے۔ ایک گیند کو نشانہ بنا کر کئی ایک گیندوں کو اپنی جیبوں میں ڈالنا ہوتا ہے۔ سیاست قومی ہو یا بین الاقوامی مقصد دونوں کا ہی ایک مد مقابل کو کمزور کر کے اس پر غلبہ حاصل کرنا ہوتا ہے‘البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں ٹارگٹ کو ڈپلومیسی کے ذریعے کمزور کرکے اپنے اہداف حاصل کئے جاتے ہیں۔ جبکہ قومی سیاست میں آپ مخالفین کی کمزوریوں کا پرچار کر کے ان کو اپنی طاقت بناتے ہیں۔پاکستانی سیاست کا خاصہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں مخالف سیاستدانوں کی کمزوریاں تلاش نہیں کی جاتی بلکہ سچا جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اپنی کمزوریوں اور حامیوں کو خوبیاں میں بتایا جاتا ہے۔اپنے گناہوں کا کفارہ بھی مخالف سے طلب کیا جاتا ہے۔ جس کی بہترین مثال پاکستان مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزر مریم نواز کی وہ آڈیو لیک ہے جس میں وہ اپنی ٹیم کو نصیحت فرما رہی ہیں کہ آپ عمران خان پر الزامات پہ الزامات لگاتے جائیں بھلے ہی بعد میں ان الزامات کا دھڑن تختہ ہو جائے۔ توشہ خانہ سے خانہ کعبہ کے عکس والی گھڑی کے پراپیگنڈا پر کروڑوں اربوں کے تحائف کا پنڈورا باکس کھل جائے تو گھڑی کو چھوڑ کر بیٹی کے الزامات‘ اس سے بھی بات نہ بنے تو عدت پوری نہ کرنے کے گناہ کا الزام اور واہ ویلا ۔سوشل میڈیا ٹیم کسی بھی جماعت کی ہو اس کا کام مخالف کی خوبیوں کو برائیوں اور اپنے رہنمائوں کی خامیوں کو بھی اچھائیاں بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے۔۔ البتہ اس بار نئی بات یہ بھی ہے کہ اب سیاسی مخالفین کے ساتھ پس پردہ کرداروں کو بھی بے نقاب کیا جا رہا ہے۔ جن کے نام زبان پر لانے کی کبھی کسی کو جرات نہ ہوتی تھی، ان کی تصویریں جلسوں میں دیکھا کر حساب مانگا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز ایک ’’تھری سٹار‘‘ ریٹائرڈ سے سیاسی قیادت کے مخالفین کے ساتھ اداروں اور کرداروں پر کیچڑ اچھالنے کے نئے رجحان پر روشنی ڈالنے کو کہا تو انہوں نے کھل کر بات کرنے کے بجائے اشاروں کنائیوں میںسجھانے کی کوشش کی۔ فرمانے لگے: مخالفین کی برائیاں تلاش کرکے عوام کے ذہن میں ان کے اعمال بد بٹھانے کی ذمہ داری بھی حالیہ چند برسوں میں سیاستدانوں پر ڈالی گئی ہے ورنہ قیام پاکستان کے بعد 70برسوں تک ان کو اتنے سے کام کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔سیاست دانوں کو بلا کر بچوں کی طرح رزلٹ سنا دیا جاتا تھا کہ آپ میں یہ یہ کمزوریاں ہیں آپ امور حکومت سنبھالنے کے اہل نہیں، کرسی سے اتریں اور جمہوریت کی اتنے برس تک ریہرسل کریں۔ جب سیاسی بھوت باتوں سے نہ مانتے تو لاتوں سے منوا لیا جاتا ہے ایوب ‘ یحییٰ ‘ ضیائ‘ مشرف نے لاتوں سے منوایا اور سیاستدانوں کے ساتھ عوام بھی مانتے رہے۔ 70سال کی ریاضت کے بعد سیاستدان اپنے مخالفین کی برائیاں تلاش کرنے کے قابل ہوئے ہیں تو عوام بھی ’’غیب‘‘ پر یقین نہ کرنے کی ضد کر رہے ہیں۔پاکستانی سیاست اس قابل بھی نہ ہوتی اگر اپنے وقت کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی لکھے ہوئے کردار ادا نہ کرنے کا ’’میثاق جمہوریت‘‘ نہ کرتیں ۔ جب کرداروں نے پلے بیک گیتوں پر ناچنے سے انکار کیا تو ہدایت کاروں نے عمران خان کا انتخاب کیا جنہوں نے لکھے پر یقین کر کے کردار نبھایا بھی خوب، مگر جب عمران خان کو بتایا گیا کہ وقفہ کے بعد فلم کے ولن کو ہیرو اور ہیرو کو ولن کا کردار ادا کرنا ہے تو ولن تو پاک بازوں کا کردار نبھانے کے لئے آمادہ ہو گئے مگر عمران خان نے ولن کے کرداروں کو اپنے امیج کے خلاف سمجھتے ہوئے نبھانے سے انکار کر دیا۔ انہونی تو یہ بھی ہوئی کہ اس بار پاکستانیوں نے بھی پاک باز کو بدکردار اور بدمعاشوں کو شریفوں کے کردار میں دیکھنے کے بجائے سوال کرنا شروع کر دیے۔ نئے سکرپٹ میںایک ٹوسٹ یہ بھی ہے کہ پاک بازی کا کردار نبھانے والوں کی یہ ذمہ داری بھی لگا دی گئی کہ وہ سکرپٹ کے نئے ولن کو یہ بات منوائیں کہ اس کھیل میں اچھے اور برے کردار ملنے سے کوئی اچھا یا برا تھوڑی ہو جاتا ہے۔ یہ تو ہدایت کار کی مرضی ہے جس کو جس کردار میں چاہے کاسٹ کر لے۔ مگر خود کو حقیقی ہیرو سمجھنے والا ضدی ماننے کو نہیں آ رہا۔ہیرو کا کردار نبھانے والے ریہرسل کر کے بتا رہے ہیں کہ دیکھو اس طرح ’’چور ڈاکو‘‘ بنائے گئے ۔ اس طرح پاک بازی کا میک اپ کر کے عام سے انسان کو فرشتہ دکھایا گیا۔سونے پہ سہاگہ تو یہ کہ اس بار کردار کے ساتھ تماشائی بھی نئے سکرپٹ پر تالیاں بچانے پر آمادہ نہیں۔ تماشائیوں نے ہال میں یہ کہتے ہوئے سٹیاں بجانا شروع کر دی ہیں کہ ہدایت کاروں کی صرف یہی نہیں بلکہ پچھلی ساری فلمیں بھی ’’ڈبہ‘‘ تھیں۔ گزشتہ 75سال سے ایک ہی فلم دیکھتے دیکھتے اس بار تماشائی بھی اکتاہٹ اور بے زاری کے اظہار کے بجائے احتجاج پر تلے نظر آ رہے ہیں تو کردار نبھانے والوں کی طرف سے بھی ہدایت کاری ایسا مشکل کام خود سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اپنی صلاحیت کو ثابت کرنے کے لئے سابقہ فلموں کے ہدایت کاروں کے نام لے لے کر کیڑے نکالے جا رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کے مطابق سابقہ تک بات بھی اس وقت تک محدود ہے جب تک خود کو حقیقی ہیرو سمجھنے والے کا وہم دور نہیں ہو جاتا۔ موصوف کو تو یہاں تک گمان ہے کہ عمران خان کو احساس ہو چکا ہے کہ ماضی میں چور ڈاکو کسی طرح بنائے جاتے رہے ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ عوامی سطح پر یہ بات تسلیم پر لیں تو ان کا سیاسی امتیاز ختم ہو جائے گا۔مریم نواز انہی پلڑوں کو برابر کرنے کی بات کررہی ہیں ۔ خبر تو یہ بھی ہے سابقہ کے علاوہ موجودہ سب کو اس کھیل کا علم ہے اور سیاسی اور غیر سیاسی سب اپنا اپنا دائو آزما رہے ہیں ۔اس بازی میں مات کس کو ہوتی ہے صرف اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔