اگر ہم ملک میں مذہبی سیاحت کا فروغ چاہتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے امکانات صرف بد ھ مت تک نہیںپھیلے ، یہ ہندو ازم تک پھیلے ہیں۔بعض روایات کے مطابق خودمارگلہ کا تعلق قدیم ہندو داستان سے ہے جس کے کچھ نقوش مہابھارتا میں ملتے ہیں۔مارگلہ کا پہاڑی سلسلہ ہندو اور بدھ مت تہذیب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوئوں کے مطابق وشنو کے ساتویں اوتار، راجہ راما چندرا نے جلاوطنی کے ایام اسی پہاڑ کے ایک گائوں سید پور میں گزارے تھے جہاں ان کی یاد میں رام کنڈ نامی مندر بھی قائم ہے اور رام کنڈ، لچھمن کنڈ، سیتا کنڈ اور ہنومان کنڈکے نام سے تازہ پانی کے چار چشمے بھی موجود ہیں۔اپریل مئی میں ہی یہاں ہندوئوں کا ایک میلہ بھی لگا کرتا تھا۔’مارگلہ‘ کا تعلق بھی ایسی ہی ایک داستان سے ہے۔ روایت ہے کہ پرانے وقتوں میں ایک ناگ ہوتا تھا جس کا نام ’ٹکشاکا‘ تھا۔ ہندواور بدھ مت کی داستانوں کے علاوہ چینی اور جاپانی داستانوں میں اس کا ذکر پایا جاتا ہے۔ہندو روایت کے مطابق ٹکشاکا ایک ایسے ناگ قبیلے کا بادشاہ تھا جو آدھے انسان اور آدھے ناگ تھے اور جنگل میں رہتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ارجن اور کرشنا نے اگنی دیوتا سے مل کر ان سے جنگ کی اور انہیں شکست دینے کے بعد ان کے جنگل کو جلا دیا۔ شکست کا غصہ ٹکشاکا نے یوں اتارا کہ اس نے ایک زہریلے ناگ کی شکل اختیار کی اور ارجن کے پوتے پرکشت کو ڈس لیا اور وہ مر گیا۔ اس کے بعد یہ اپنے ناگ قبیلے کو لے کر’ٹکشاکا‘ ان پہاڑوں میں آ گیا جہاں بیٹھ کر ہم کہانی سن رہے ہیں۔ مارگلہ کے آخری کونے پر ناگوں نے بسیرا کیا جہاں آج کل ٹیکسلا ہے۔ روایت ہے کہ ٹیکسلا کا شہر اسی ناگ بادشاہ ’‘ ٹکشاکا‘‘ سے منسوب ہے۔مہابھارتا کے مطابق پرکشت کا بیٹا جب بادشاہ بنا تو اس نے ٹکشاکا کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس جنگ میں’ٹکشاکا‘ کی فوج کے دفاعی مورچے مارگلہ کے پہاڑوں میں قائم کیے گئے۔ ٹکشاکا کو شکست ہوئی لیکن استیکا نامی ایک سادھو بابا کی مداخلت سے ٹکشاکا کی جان بخشی ہو گئی اور اس کے قبیلے کو یہیںرہنے کی اجازت مل گئی۔ یہ ناگ قبیلہ اسی پہاڑی سلسلے میں آباد ہو گیا۔سانپوں کے قبیلے کی وجہ سے ان پہاڑوں کو ’مارقلعہ‘ یعنی سانپوں کا قلعہ یا ’ماری گلہ‘ یعنی سانپوں کا مرکزکہا جانے لگا۔البیرونی کی کتاب الہند میں بھی ماری قلعہ کا ذکر موجود ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ناموں کی ادائیگی بدلتی رہتی ہے تو ایک وقت آیا کہ ماری قلہ یا ماری گلہ جو بھی تھا، وہ مارگلہ کہا جانے لگا۔ راول ڈیم کے پہلو میں، تھوڑا آگے جا کر، سی ڈی اے کی ہائوسنگ سوسائٹی پارک انکلیو ہے۔ اس کی مشرقی دیوار سے باہر ایک ٹیلہ ہے جس پر ایک قدیم عمارت موجود ہے ۔یہ مندر ہے اور ساتھ ہی برگد کا ایک درخت ہے۔ کنویں کی ایک ایک اینٹ سلامت اور اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔ کنویں کے پہلو میں برساتی ندی بہہ رہی ہے اس لیے امکان یہی ہے کہ کنواں آج بھی خشک نہیں ہو گا اگر اس کی صفائی کر لی جائے تو یہ اتنا بڑا کنواں ہے کہ ایک گائوں کے لیے کافی ہو۔عمارت بھی کسی طور خستہ نہیں۔ اس کی مضبوطی حیران کن ہے۔ گائوں کے بزرگ بتاتے ہیں کہ یہ کری کا بڑا مشہور مندر تھا اور ان زمانوں میں یہاں ٹیکسلا سے ہندوستان تک ہندوئوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ یہاں ساتھ ہی سرائے بھی تھی جہاں وہ رکتے تھے۔ مارگلہ کا گائوں سید پور بھی ہندوئوں کا مقدس مقام رہا ہے۔ ہندو ئوں کے مطابق شو کے ساتویں اوتار راجا راما چندرا نے جلا وطنی کے ایام یہیں گزار ے تھے۔ یہااں ان کی یاد میں رام کنڈ نامی مندر بھی موجود ہے۔ یہاں کی ندیاں بھی ’رام کنڈ،‘ ’لکشمن کنڈ،‘ ’سیتا کنڈ‘ اور ’ہنو مان کنڈ‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سجاد اظہر صاحب نے لکھا ہے کہ بعد ازاں راولپنڈی کے ایک متمول تاجر بسنت رام نے یہاں ایک آشرم بنوایا اور دھرم شالہ کو بھی توسیع دی۔ اس کے علاوہ جنہوں نے بھی اس کی تعمیر نو میں چندہ دیا ان کے نام آج بھی یہاں فرش پر لکھے ہوئے ہیں۔تقسیم کے وقت جب ہندو جانے لگے تو مندر کا انتظام و انصرام رام لال، رادھو اور دیوان کے پاس تھا جو جاتے ہوئے مندر سے لکشمی اور کالی کی مورتیاں ساتھ لے گئے تھے۔مندر کے اندر لکشمی اور کالی کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ ہندو مت میں لکشمی وشنو کی بیوی تھی اور اسے وشنو کی سب سے طاقت ور دیوی کی حیثیت بھی حاصل ہے جو اپنی فیاضی کی وجہ سے مشہور ہے جس کے ذمے بارشیں، خوشحالی اور تاج و تخت ہیں۔لکشمی کے ماننے والوں کا اب ایک الگ فرقہ بھی بن گیا ہے۔ جبکہ کالی بھی ہندو مت کی دس طاقتور دیوی دیوتاؤں میں سے ایک ہے جس کا ظہور شیطانی طاقتوں کے خاتمے کے لیے ہو اتھا۔اس مندر کے ساتھ ایک گردوارہ بھی موجود ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ اسے سکھوں نے بیسوی صدی کے اوائل میں بنایا تھا۔ اس گردوارے کے ساتھ ایک عمارت ہے جہاں بچوں کو سکھ مذہب کی تعلیم دی جاتی تھی۔تقسیم کے بعد گردوارے کو سکول میں بدل دیا گیا جس کی وجہ سے اس کی دیواروں پر بنے نقوش پر چونا پھیر دیا گیا تھا۔ اسی دور میں مندر کا بھی یہی حال ہوا۔ مندر میں موجود تصاویر بھی ضائع ہو گئیں۔سجاد اظہر کے مطابق راجہ درش کے عہد میں شکتی ماتا نے اپنے خاوند شیو شنکر گروناتھ کی موت کے بعد خود کو ستی کر دیا تھا تو ان کے جسم کے 11 ٹکڑے ہوئے تھے۔ ایک ٹکڑا پنڈی میں بھی لایا گیا تھا۔ پنڈی کا مطلب سنسکرت میں انسان کی قربانی ہے جو اسی وجہ سے موسوم ہوا ہے۔ راولپنڈی کا نام شکتی ماتا کی نسبت سے ہے۔ صرف گردوارہ نانک صاحب اور کٹاس راج ہی نہیں، بہت سے دیگر مقامات بھی ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں۔کٹاس راج سے چند کلومیٹر کے مقام پر مندروں کا ایک سلسلہ ہے جس میں گنگو کھوئی، شو مندر پڈھا اور ہنومان کا ٹیلہ بھی ہے۔راول ڈیم کی طرح ایک مندر منگلا ڈیم پر ہے۔سیالکوٹ کا جگن ناتھ مندر اور لسبیلہ کا ہگلاج ماتا مندر ہندوئوںکے مقدس ترین مقامات میں شمار ہوتے ہیں۔ملتان کا سوریہ مندر تو کرشن مہاراج کے بیٹے نے خود تعمیر کرایا تھا۔ پشاور میں کالی باڑی کے مندر پر گاندھی آئے تھے۔اسی طرح مانسہرہ میں دنیا کا دوسرا برا شیو لنگم ہے۔ انبالہ مندر سرگودھا اور پشاور کے پاٹ شالہ جیسے کئی مندر سکول بن گئے۔ اور پنج تیرتھ اور گوبھی ناتھ جیسے کئی مندر پارک بن گئے۔کچھ قبضہ گروپس کی ہوس کی بھینٹ چڑھ گئے اور اب ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ تاہم جن مندروں کے کچھ آثار موجود ہیں، انہیں بحال کر دیا جائے تو نہ صرف بھارت بلکہ نیپال، سری لنکا، بھوٹان سمیت دنیا بھر سے سیاح پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں۔ مذہبی سیاحت ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اسے نظر انداز کیے رکھیں گے؟