بازار کسی بھی ملک کی معیشت کا اہم ترین حصہ ہوتے ہیں۔ بازار بڑا ہو یا چھوٹا ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لوگ اپنی روزمرہ کی ضروریات زندگی پوری کرنے کیلیے بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں یہ کاروبار زندگی کو رواں دواں رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہیں بازار لوگوں کی بنیادی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ میں نے زندگی کے کئی سال یورپ میں گزارے اور وہاں کے بازاروں اور تجارتی مراکز کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جرمنی، فرانس، اٹلی، سوئٹزر لینڈ ، پولینڈ ، یوکے، ساؤتھ افریقہ اور دیگر کئی ممالک کے بازار اور مارکیٹس دیکھنے اور گھومنے کے بعد مجھے حقیقتاً اندازہ ہوا کہ بازار ملکوں کی ترقی اور معیشت کو سہارا دینے میں کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے بازاروں میں پھرتے ہوئے جو بات سب سے پہلے میں نے نوٹس کی وہ تھی وقت کی پابندی اور صفائی ستھرائی ہے۔ دوسری اہم بات کہ وہاں بازار بڑے ہوں یا چھوٹے، کوئی گلی محلے کی دکان ہو یا بڑا سا شاپنگ مال ، وہاں افراتفری اور دھکم پیل ہرگز نہیں ہوتی۔ کرسمس کی سیل ہو یا بلیک فرائی ڈے، لوگوں کا رش اور ہجوم ضرور ہوتا ہے لیکن قطار میں کھڑے لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ تیسری لیکن سب سے اہم بات کہ بازاروں میں ٹریفک کا رش ہرگز نہیں ہوتا اوردراصل یہی میرا آج کا موضوع ہے۔ پاکستان کے کسی بھی شہر کے کسی بھی بازار میں چلے جائیں سب سے پہلے جس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہے وہاں کی بے ہنگم ٹریفک !! گاڑیاں ، ٹیکسی، رکشہ، ویگن، بس، موٹر سائیکل سے لے کر گدھا گاڑی تک دنیا کی ہر وہیکل آپ کو پاکستانی بازاروں میں بلا جھجھک گھومتی نظر آئے گی۔ بازار میں جتنا رش لوگوں کا ہوتا ہے اس سے دوگنا ٹریفک کا ہوتا ہے اور اس میں کمال مہارت موٹر سائیکل سواروں کی ہے کہ بازاروں کی تنگ و تاریک گلیوں میں بھی ایسے چلاتے ہیں گویا موت کے کنویں میں کرتب دکھا رہے ہوں۔ ایک دوسرے پہ چڑھائی کرتی یہ سواریاں لوگوں کی ذہنی اذیت کو مزید بڑھا دیتی ہیں جبکہ خریدار اشیائے خوردونوش کی ہوشربا قیمتوں سے پہلے ہی سٹپٹائے ہوتے ہیں۔ پاکستانی بازاروں میں پھیلی افراتفری اور بے چینی کی چند بنیادی وجوہات ہیں لیکن اس سے پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے بازاروں کے پرسکون ماحول کی سب سے اہم وجہ ٹریفک کی بے دخلی ہے۔ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ہر طرح کے بازار میں گاڑیوں کا داخلہ منع ہے۔ مارکیٹ اور بازاروں کے باہر چند سو میٹر کے فاصلے پر کارپارکنگ کا ایریا مختص ہوتا ہے۔ لوگ اپنی گاڑیاں، موٹر سائیکل وغیرہ پارکنگ ایریا میں کھڑی کرکے پیدل چل کر مارکیٹ تک آتے ہیں۔ کسی کو مارکیٹ یا دکان کے اندر گاڑی و موٹر سائیکل لانے کی اجازت نہیں ہوتی سوائے معذور افراد کے۔ بڑی بڑی دکانوں اور شاپنگ مالز میں لوگ میلوں پیدل چلتے ہیں اور خریداری کے بعد پارکنگ میں پیدل واپس جاتے ہیں۔ خریدے ہوئے بھاری سامان کو ٹرالی میں لاد کر پارکنگ تک لایا جاتا ہے اور سامان کو گاڑی میں رکھنے کے بعد ٹرالی کو اسکی مختص کی گئی جگہ پر رکھا جاتا ہے نا کہ وہیں بیچ راستے میں چھوڑ دیا جائے کہ آنے جانے والوں کو دقت کا سامنا ہو یعنی نظم و ضبط کی پابندی کی جاتی ہے۔ نیزبازار اپنے وقت پر صبح سویرے کھلتے ہیں اور رات آٹھ نو بجے تک ہر صورت بند کر دئیے جاتے ہیں۔۔ سوائے ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کے کسی اور گاڑی کو بازاروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ معذور افراد کے لیے الگ راستے اور گزر گاہیں ہوتی ہیں جنہیں انکے علاوہ اور کوئی استعمال نہیں کرتا۔ نیز لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور دکانداروں اور گاہکوں کا احترام اور خیر مقدم کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں صورتحال بالکل برعکس ہے۔ آپ بازار اپنی گاڑی پر جائیں یا پیدل چل کر، دونوں صورتوں میں ٹریفک سے مڈبھیڑ لازمی امر ہے۔ بازار کھلے ہوں یا تنگ ، گلیاں ہوں یا میدان ، ہر جگہ لوگ اپنی گاڑی اور موٹر سائیکل کو گھسانا فرض سمجھتے ہیں۔ لوگوں کا پیدل چلنا محال ہوجاتا ہے۔ بے انتہا رش میں لوگوں کا لڑائی جھگڑا، دھکم پیل، گالم گلوچ اور مارکٹائی معمول کی باتیں ہیں۔ خصوصاً تنگ راستوں پر گاڑی موٹر سائیکل وغیرہ کی ٹکر ہو جائے تو صورتحال مزید سنگین ہو جاتی ہے نیز رہی سہی کسر مہنگائی کی وجہ سے پوری جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں ڈیپریشن ، ٹینشن اور مختلف ذہنی و جسمانی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں پیدل چلنے کا رجحان بالکل نہیں ہے ۔گھر کی قریبی دکان پربھی پیدل کی بجائے سواری کا استعمال کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے شوگر اور بلڈ پریشر ہر دوسرے پاکستانی کو مفت میں مل رہا ہے۔ پاکستان میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ اگر بازاروں میں ٹریفک پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے تو حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے ضروری اقدام پارکنگ ایریاز میں اضافہ کرنا ہے۔ تمام چھوٹے بڑے بازاروں کے باہر بڑے بڑے پارکنگ ایریا بنائے جائیں اور ہر طرح کی ٹریفک پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ بازار اور مارکیٹس کی گلیوں میں گاڑی، موٹر سائیکل سواروں کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔ دکانیں جلد بند کرنے کے ساتھ ساتھ سامان کی ترسیل و منتقلی کا عمل رات کے اوقات میں کیاجائے۔ ہمارے ہاں یہ معمول ہے کے دن کے وقت گاہکوں کے رش کیساتھ سامان لانے لے جانے والی گاڑیوں کا رش بھی لوگوں کی آمد و رفت کو متاثر کرتا ہے۔ بیچ بازار میں کھڑے بڑے ٹرک اور ہیوی لوڈڈ گاڑیاں مزید تنگی کا باعث بنتی ہیں۔ پاکستان کے تمام بازاروں کو کار فریzone قرار دیا جائے۔ بازاروں میں بڑھتے رش پر قابو پانے کیلیے باقاعدہ نظام بنایا جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے تاکہ لوگ بناکسی رکاوٹ اور تنگی کے اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں اور خریدار بنا کسی مڈبھیڑ کے پرسکون ماحول میں خریداری انجام دے سکیں۔