پچھلے دِنوں ایک نامور پاکستانی سینئر صحافی کو کینیا میں سر میں گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔ اگرچہ کسی پاکستانی صحافی کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا کیونکہ ماضی بعید و قریب میں ایسے درجنوں واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں صحافت کے شعبہ سے وابستہ افراد کو قتل، تشدد، اغوائ، نوکری سے برخاستگی اور کئی طرح کے دیگر جرائم کا سامنا کرنا پڑا۔صحافیوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عمومی طور پر ’آزادیِ اظہار‘ یا آزادانہ اندا ز میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور غیر جانبدارانہ انداز میں لکھنے کی سزا ملتی ہے۔ یہ سزا کبھی نوکری سے برخاست کرواکے دی جاتی ہے، کبھی دھمکیاں دی جاتیں ہیں، کبھی بیوی بچوں کو پریشان کیا جاتا ہے، کبھی اغوا کرلیا جاتا ہے، کبھی تشدد اور کبھی جان سے ماردیا جاتا ہے۔ معروف شاعر جنابِ خالد احمد فرمایا کرتے تھے کہ ایک شاعر اور تخلیق کار کو تیس سال سے قبل سب کچھ لکھ دینا چاہئے کیونکہ عمومی طور پر تیس سال کے بعد آدمی شعور کی منازل طے کرنے لگتا ہے۔ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی قابلیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس لئے وہ لکھنے اور بولنے سے قبل اپنی جانبدارانہ سوچ کو اپنی لکھت اور خیالات میں شامل کرلیتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے ایک صحافی کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میڈیا کی زبان میں اِسے’فعالیت پسند‘ یا سرگرم رکن کہا جاتا ہے یعنی ایک صحافی غیر جانبداری سے نکل کر کسی سیاسی، معاشی، کاروباری، سماجی یا کسی بھی دوسرے گروپ کا سرگرم رکن بن کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگتا ہے۔ یہ اظہار کالم، ٹیلی ویژن پر تجزیوں، تبصروں، وغیرہ کی صورت میں اْبھر کر سامنے آتا ہے۔ جب ایک صحافی کسی سیاسی جماعت کا سرگرم رکن بن کر سوچنے لگتا ہے، تب وہ اسی سیاسی جماعت کے منشور یا اس سیاسی جماعت کے لیڈر کی سوچ کے مطابق صحافت کرنے لگتا ہے۔ بظاہر ایسا کرنے کے پیچھے اس کے پاس ہزاروں تاویلات اور وجوہات ہوتی ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں وہ خود کو غیر جانبدار بھی کہہ رہا ہوتا ہے اور ساتھ اس سیاسی جماعت کے منشور کا پرچار بھی کررہا ہوتا ہے۔ ایسا کرتے وقت وہ دوسری جماعتوں کے منشور اور رہنماؤں کی سوچ، خیالات اور نظریات کی دھجیاں اڑا رہا ہوتا ہے۔ اس عمل میں جانبدارانہ خیالات والی جماعت جب اقتدار میں آتی ہے تو ایسے جانبدار صحافیوں کو طرح طرح کے انعام و اکرام سے نوازتی ہے۔جب ایسا ہورہا ہوتا ہے تب جانبدار صحافی حضرات کو بظاہر برا نہیں لگتا اگرچہ ضمیر غیر جانبداری کے لئے جھنجھوڑ رہا ہوتا ہے۔تب وہ اپنے علاوہ دوسرے صحافیوں کو برا بھلا بھی کہہ رہا ہوتا ہے اور اپنے نظریات کی حامی وہ جماعت جس کے نظریات کے ساتھ اس صحافی نے اپنی جانبدارانہ سوچ متصل کردی ہوتی ہے اس جماعت کی نجی محافل میں بیٹھ کر وہ اپنے دوسرے صحافیوں پر لعن طعن کے نشتر بھی چلا رہا ہوتا ہے جب کہ اْس سیاسی جماعت کے رہنماء اور لیڈران غیر جانبداریا دوسری جماعتوں کے نظریات سے اتفاق کرنے والے صحافیوں کو طرح طرح کے القابات سے نواز رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمارے ہاں یہ رواج چل پڑا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ اب تو خود صحافی برادری بھی ایک دوسرے کوبرے القابات سے پکارتی ہے۔ یہ لقب اس لئے بھی دیا جاتا ہے کہ سالہا سال سے کام کرنے والے صحافی جب راتوں رات کسی نووارد یا ’پیرا شوٹر‘ کو امیر بلکہ امیر تر ہوتے دیکھتے ہیں تو فوراََ سے پہلے اسے لقب عطا کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تصور پاکستانی صحافت میں نیا نہیں ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں لفافے کا لقب بہت سارے صحافیوں کے مقدر کی طرح خود گردش میں ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے بھی اس تصور کا خوب پرچار کیا ہے۔ یہ تصور مختلف انداز میں دیگر اقوام میں بھی پایا جاتا ہے اگرچہ وہاں لفافہ کی بجائے دیگر اصطلاحات مستعمل ہیں مگر یہ تصور وہاں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ دیگر اقوام نے اپنے معاشروں میں ایسے کئی قوانین وضع کررکھے ہیں جن کی بدولت انتظامیہ، حتی کہ صحافیوں کے ذرائع آمدن کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ ان کا احتساب تک کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں دیگر شعبہ جات کی طرح صحافیوں کو احتساب کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر سیاستدانوں کی طرح صرف صحافیوں کو ہی جان سے مارنے کی دھمکیاں، تشدد، اغواء اور موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فی الحال دیگر شعبہ جات میں کام کرنے والے افسران و اہلکار ان سزاؤں سے مبرا نظر آتے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جانبداری تو شاید ہر فرد میں پائی جاتی ہے، چاہے وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر وہ شخص جو ووٹ دیتا ہے اس میں جانبداری ضرور پائی جاتی ہے۔ یہی جانبداری اسے اپنے نظریات کے ساتھ مطابقت رکھنے والی سیاسی جماعت کو ووٹ دینے پر مائل کرتی ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ صرف صحافیوں کو ہی تشدد،اغوائ،جنسی زیادتی اور قتل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ کیا ہمارے ہاں سیاستدانوں نے بدعنوانی، چور بازاری، لوٹ مار، اقربا پروری، اغواء اور قتل جیسے جرائم کا ارتکاب کرکے اربوں روپے کی جائیدادیں نہیں بنائیں؟ پاکستان قائم ہونے سے اب تک ایسے ہزاروں سیاستدان موجود ہیں جنہوں نے کروڑوں روپے کی جائیدادیں، بینک بیلنس اور کاروبار قائم کئے ہیں۔ حیران کن طور پر ان سیاسی جماعتوں میں کئی ایسے سیاستدان موجود ہیں جو آج ایک سیاسی جماعت میں ہوتے ہیں تو دوسرے دن کسی دوسری جماعت میں پائے جاتے ہیں۔ تعجب تب بھی نہیں ہوتا جب وہی سیاستدان پہلے ایک سیاسی جماعت اور ٹھیک دوسرے دن دوسری جماعت کے نظریات کا پرچار کررہے ہوتے ہیں۔ یہ سیاستدان محض دوسری سیاسی جماعت کے نظریات اور نئے سیاسی آقاؤں کے نظریات، قول و فعل کا دفاع ہی نہیں کررہے ہوتے بلکہ یہ دوسری سیاسی جماعت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز بھی ہوجاتے ہیں اور اپنے عہدوں اور اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھا کر مال بھی بنا رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ سب سیاسی جماعتیں بدلنے والوں کے لئے جائز ہے تو پھر کیا جانبداری کا حق صحافی کو حاصل نہیں ؟ بلاشبہ ایک صحافی کو کلی طور پر غیر جانبدار ہی رہنا چاہئے۔ ہر صورت میں ایک اچھے صحافی کو اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنی چاہئے تاکہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ٹھیک کام کرسکے۔ مگر صحافی بھی انسان ہوتے ہیں۔ اس لئے اْن سے بھی غلطی سرزد ہوسکتی ہے اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سیاستدانوں کی طرح اپنے خیالات و نظریات بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ اگر ایک سیاستدان کو اپنے نظریات کی تبدیلی کے لئے سزائے موت نہیں دی جاتی تو ایک صحافی کو اس قدر سخت سزاکیوں دی جاتی ہے؟ کیایہاں ایک صحافی اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کا حق نہیں رکھتا؟