آج کے اخبار میں ایک دلچسپ خبر سکاٹ لینڈ سے آئی ہے۔ ایک سترہ سالہ لڑکا اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکلوا رہا تھا کہ پیچھے سے ایک شخص نے اس کی گردن دبوچ کر اس سے ڈاکہ زنی کی کوشش کی۔ لڑکے نے اس کی آواز سے اسے پہچان لیا کہ ڈاکو کے روپ میں گن پوائنٹ پر اسے لوٹنے کی کوشش کرنے والا اس کا باپ ہے ۔یہ بڑا ہی عجیب لمحہ تھا جب 45 سالہ شخص اپنے سترہ سالہ بیٹے کے سامنے چور کی حیثیت سے کھڑا تھا۔ یہ خبر پڑھ کر نجانے کیوں میرا دھیان اپنے ملک کی طرف چلاگیا۔جہاں سیاستدان رہنما کا بہروپ بھر کر انہیں کسی نہ کسی صورت لوٹتے رہتے ہیں، ان کا حق کھاتے رہتے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے عوام ان کو پھر بھی نہیں پہچانتے ۔یہ رہنما سیاستدان لیڈر کے روپ میں کسی ڈاکو اور چور کا سا کردار رکھتے ہیں . سرکاری توشہ خانہ سے تحائف لینے والے تمام سیاسی رہنماؤں کے نام منظر عام پر آ چکے ہیں۔ لوگ پڑھ چکے ہیں ۔ویسے اس میں مجھے تو حیرت نہیں ہوئی۔اس بہتی گنگا میں سب ہی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ سب سے زیادہ تحائف لینے والے وزیراعظم کا نام شوکت عزیز ہے جن کی شہریت بھی امریکہ کی تھی۔ وہ پاکستان پر حکمرانی کرکے اپنا بریف کیس اٹھا کر واپس اپنے آقاؤں کے دیس چلے گئے، پاکستان کے اندر ان کا کوئی سٹیک نہیں تھا ۔زرداری نواز شریف, مشرف کے علاوہ سب نگران وزیراعظموں نے بھی سرکاری توشہ خانے کے تحائف پر ہاتھ صاف کیا۔ یہ خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ شہباز شریف نے ابھی تک توشہ خانے سے کوئی تحفہ اپنے نام نہیں کیا۔مسلم لیگ نون کے سیاستدان سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ڈھٹائی مگر اپنی جگہ حیران کن ہے۔وہ اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ انہیں توشہ خانے سے تحائف رکھنے پر کوئی شرمندگی نہیں۔ کہتے ہیں وہ تحفے مجھے ہی ملے تھے کیونکہ اس وقت میں ملک کا وزیراعظم تھا۔ مزید فرماتے ہیں کہ تحائف پاکستان کو نہیں اس وقت کے حکمران کو ملتے ہیں۔کاش عباسی صاحب کو کوئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائے کہ سرکاری عہدیدار کو ملنے والے تحائف اس کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتے۔ اب جامعہ نعیمیہ نے اس پر فتوی بھی دے دیا ہے کہ سرکاری توشہ خانے کے تحائف اپنے پاس رکھنا خیر شرعی اور نا جائز ہے۔ فہرست منظرعام پر آنے کے بعد ایک طرف تو شاہد خاقان عباسی نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا تو دوسری طرف احسن اقبال نے شرمندگی کے احساس کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحائف کی اصل قیمت جمع کروادی ہے۔یہ احساس بھی بہت قیمتی ہے اگر بیدار ہو جائے۔ تبدیلی کے دعوے دار اور مدینہ کی ریاست بنانے کے بلند بانگ دعوے کرنے والے کپتان نے بھی توشہ خانہ سے کروڑوں کے تحائف اپنے پاس رکھے۔ توشہ خانہ کی گھڑی کا کیس عدالت میں ہے اس پر خان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے۔ عمران خان بہت بلند اخلاقی اقدار کے علمبردار تھے اور وہ روایتی سیاستدانوں کے انہی رویوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ 22 سال انہوں نے اپنی پریس کانفرنسوں اور اپنی تقریروں میں ان سیاستدانوں کی کرپشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور ہمیشہ اعلان کیا کہ ہم حکومت میں آئیں گے تو ہم ایسا نہیں کریں گے۔ توشہ خانے سے تحائف لینے کے حوالے سے سیاسی اشرافیہ نے اپنے مفاد کے مطابق قانون سازی کی اور 20 سے 50 فیصد تک رقم ادا کرکے تحائف رکھنے کا قانون بنایا۔ اس پر بھی جامعہ نعیمیہ کا فتویٰ آ چکا ہے کہ یہ قانون سازی بھی حرام اور ناجائز ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو تحائف ملتے ہیں تو انہیں بھی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے حکمرانوں کو جوابی تحائف دے کر reciprocate کرنا ہوتا ہے۔کیا ان تحفوں کی قیمت وہ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں ؟ ان تحفوں کی ادائیگی ملکی خزانے سے ہوتی ہے جس خزانے کو بھرنے کے لئے پاکستان کا ایک سفید پوش شہری بھی ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اب کچھ بات کرلیتے ہیں تحریک انصاف کے کارکن ظل شاہ کے قتل کی جو اپنے لیڈر کی ریلی میں مارا گیا۔قطع نظر اس کے کہ اسے کس نے قتل کیا کیونکہ یہ معاملہ بھی ابھی الجھا ہوا ہے۔لیکن ایک بے رحم انسانی رویے کا منظر تو سب نے دیکھا ۔کپتان نے اپنے کارکن کے تازہ مرگ کے بعد اس کے بوڑھے باپ کو بلایا اور پھر ڈھائی گھنٹے کے انتظار کے بعد اس سے ملاقات کی جسے تعزیت کرنے سے تعبیر کیا جارہا ہے لیکن تعزیت کا بھی یہ کون سا انداز ہے۔ایک بوڑھے شخص کو جس کے بیٹے کے ناگہانی قتل کو چند گھنٹے ہوئے ہوں، آداب غمگساری میں نہ اس کو گلے لگایا، بلکہ غم اور صدمے کے مارے بوڑھے باپ کو سامنے بٹھا کرموصوف لیڈر نے جس تمکنت سے تعزیت فرمائی ہے اس پر حیرت بھرا افسوس ہے۔ ظل شاہ کا معاملہ کافی الجھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔وہ پنجاب پولیس کے ہاتھوں مارا گیا یا پھر وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی گاڑی سے ٹکرا کر مارا گیا؟ اس میں یاسمین راشد کا کردار کیا تھا ؟ یہ مکمل سچ شاید کبھی بھی منظر عام پر نہ آ سکے مگر کربناک حقیقت یہ ہے کہ ایک انسانی جان سیاست کی بھینٹ چڑھی۔اس سے کی لاش پر سیاست کی گئی۔ اس کی پوری تحقیقات ہونی چاہئیں کہ وہ غریب کیسے مارا گیا۔ ظل شاہ کی غمزدہ ماں کی تڑپتی ہوئی پکار بھی سن لینی چاہیے وہ ایک ٹی وی انٹرویو میں کہتی ہیں کہ میں نے اپنا بیٹا عمران خان کو دیا تھا تھا مجھے میرا بیٹا واپس چاہیے۔ کیا اس پر کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے۔ سیاسی لیڈر جو خود تو حفاظتی حصار میں رہتے ہیں، گھر سے نکلتے ہیں تو بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھتے ہیں ۔عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے کہ جان کا خطرہ ہے, مگر اپنے ہزاروں کارکنوں کی جانوں کو کیوں خطرے سے دوچار کرتے ہیں ؟یہ کارکن ان کے لیے کسی ٹشو پیپر سے زیادہ کی اہمیتِ نہیں رکھتے۔ استعمال کیا اور پھینک دیا ۔ مگر یہ گھناؤنا سچ بیٹے کی جدائی میں دکھ سے تڑپتی ہوئی ایک ماں کو کون بتائے !