گزشتہ ہفتے پاکستان ایک نئے اور تلخ تجربے سے گزرا ۔ عمران خان کی گرفتاری پر جو غیرمعمولی اور پرتشدد ردعمل سامنے آیا وہ نہ صرف غیر متوقع تھا بلکہ اس نے ایک دنیا کو ششدر کردیا۔ اس قدر غصہ اور نفرت کہ لوگوں کے جو ہاتھ لگا انہوں نے اسے تباہ اور برباد کردیا۔حتیٰ کہ عسکری اداروں کی عمارتیں بھی محفوظ نہ رہیں۔ ان واقعات کی بھرپور مذمت ہوئی اور ہونی بھی چاہیے۔ زیادہ گہرائی میں جاکر سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ لوگ محض عمران خان کی محبت میں اپنے ہی وطن کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تل گئے تھے یا اس کی تہہ میں کچھ اور عوامل بھی کارفرما ہیںجن پر سنجیدگی سے دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند دنوں کے بیانات اورجوابی بیانات سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے سخت غیظ وغضب کا شکار ہیں۔ وہ سرکاری عمارات پر حملوں میں شریک شہریوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور انہیں سزائیں دینے کی طرف مائل ہیں۔ یہ فطری ردعمل ہے اور قانونی تقاضہ بھی لیکن یہ راستہ ملک کو ایک او ر دلدل میں دھکیل دے گا۔کیونکہ اس سے مسئلہ حل نہیں بلکہ مزید بگڑجائے گا۔ شہریوں بالخصوص نوجوانوں کی مرنے مارنے کی نفسیاتی کیفیت اور سماجی پہلوؤں کا جائزہ لینے اور پھران کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ قانون کا ہتھوڑا چلا کر لوگوں کا سرکچلنے کی۔ اگرچہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں ملک سے مڈل کلاس کا خاتمہ بتدریج ہورہاتھا لیکن موجودہ حکومت نے گزشتہ ایک برس میں اچھے بھلے خوشحال گھرانوں کو لنگرخانوں کا محتاج بنادیا ہے۔ ساٹھ فی صد نوجوانوں کی آبادی والے اس ملک میں اب صرف دوطبقات باقی بچ گئے ہیں ۔ ایک امراء کا طبقہ ہے اور دوسرا مفلسین کا۔امراء میں حکمران اشرافیہ، نوکری شاہی، سیاستدان اوربڑے کاروباری طبقات شامل ہیں۔طبقہ مفلسین میں مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام ہیں۔ پولیس سے جن کو روز جوتے پڑتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر ان کے گردے تک بیچ ڈالتے ہیں۔ تعلیم کے نا م پر نجی ادارے ان کی جمع پونجی لوٹ لیتے ہیں۔ عدالتوں میں وکلا ان کا خون نچوڑلیتے ہیں لیکن مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ حکومت بجٹ کا بہت بڑا حصہ خرچ کرتی ہے لیکن عالم یہ ہے کہ شہروں کے اندر بم دھماکوں میں لوگ مارے جاتے ہیں۔ شہری علاقوں کے مسائل کا انوکھا حل تلاس کیا گیا۔ تمام بڑے شہروں کے نواح میں امرا کے ایسے جدید شہر آباد کیے گئے جہاں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈ نگ ہوتی ہے نہ مکینوں کو گرمی سردی کا احساس ہوتاہے۔ کالی، پیلی اور نیلی ٹیکسی پر سفر کرنے والوں کا یہاں سے گزر نہیں ہوتا۔ تفریح کے لیے شاندار پارک ہیں۔اعلیٰ پائے کے سنیما ہال۔سوئمنگ پول ایسے کہ آنکھیں چندھیا جائیں۔تعلیمی ادارے ایسے جہاں فیس ڈالروں میں وصول کی جاتی ہے۔اعلیٰ سرکاری افسر، جج، وکلاء ، کاروباری خواتین وحضرات ان نئے آباد ہونے والے شہروں میں منتقل ہوچکے ہیں۔اس کے برعکس پرانے شہروں میں پینے کا پانی تک دستیاب نہیں۔ گٹر ابل رہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے الیکشن تک نہیں کرائے جاتے تاکہ اختیار نچلی سطح تک منتقل نہ ہوجائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حال ہی میں جو اعدادوشمار جاری کیے ان کے مطابق ملک میں کل ووٹروں کی تعداد ساڑھے بارہ کروڑ ہے۔ جن میں 44 فی صد کی عمر 35برس سے کم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کو کمزور، غریب اور بدحال دیکھا ہے۔ پرویز مشرف کا مارشل لاء لگ بھگ دس برس کھاگیا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان مسلسل حالت جنگ میں ہے۔ قبائلی علاقہ جات، خیبر پختون خوا اور بلوچستان مسلسل دہشت گردی کا شکار رہے۔لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول پر گولہ باری جاری رہی۔آبادی کے ایک بڑے حصہ نے پاکستان کو پرسکوں دیکھا ہی نہیں۔ اس پس منظر میں حکومت اور نظام سے فرسٹریشن پیداہونا فطری امر ہے۔ اس فرسٹریشن کو عمرا ن خان نے ایک تحریک کے قالب میں ڈھال لیا ہے۔انہوں نے قانون کی بالادستی، حکمران طبقات بالخصوص مورثی سیاست کے خلاف ایک موثر بیانیہ تشکیل دیا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ملک کے طاقت ور طبقات کو بھی آڑے ہاتھ لینا شروع کیا۔ لوگ پہلے ہی خار کھائے بیٹھے ہیں۔ افسوس! پی ڈی ایم کی نااہل حکومت ایڑیاں رگڑنے کے باوجود آئی ایم ایف سے ارب دو ارب ڈالر بھی نہ حاصل کرپائی لیکن اس دوران اس نے عالمی مالیاتی ادارے کے ’’شاہی فرمان ‘‘پر اپنے عوام کے کس بل نکال دیئے۔ مشکل حالات کے باوجودوزیراعظم شہباز شریف برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس فلپ آرتھر اور اْن کی اہلیہ ملکہ کنسورٹ کمیلا کی تاج پوشی کی تقریب میں پورے کروفر سے شریک ہوئے۔ایسے لچھن ہوں حکمرانوں کے تو رعایاغصب ناک کیونکر نہ ہو۔ لوگ عمران خان کی محبت میں کم لیکن اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کا بدلہ لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالیہ واقعات اس آنے والے طوفان کی محض ایک جھلک تھے۔ڈریں اس وقت سے جب مخلوق خدا بے قابو کر شاہی محلات کا رخ کرے گی اس وقت کوئی بندہ رہے گا نہ کوئی بندہ نواز۔ مخالف سیاستدانوں، صحافیوں اور اختلاف کرنے والی آوازوں کو دبا کر یا جیلوں میں ڈال کر حکومت کچھ بھی نہ حاصل کرپائے گی۔ شہری آزادیوںپر لگنے والی قدغنوں، سوشل میڈیا پر پابندیوں اورذرائع ابلاغ کو مخصوص کوریج کا پابند کرنے سے حکومت کو سوائے بدنامی اور ناکامی کے آج تک کچھ ملا ہے اور نہ آئندہ ملنے والا ہے۔ عمران خان کے خلاف اتحاد بنانے کے بجائے آزادانہ اور شفاف الیکشن کرایا جائے۔یہ عوام پر چھوڑدیا جائے کہ وہ اپنی لیڈرشپ کس شخصیت یا جماعت کے حوالے کرتے ہیں۔ یہی جمہوریت کا تقاضہ ہے۔ بصورت دیگر بے یقینی، سیاسی عدم استحکام کا موجودہ سلسلہ اگلے کئی برسوں تک جاری رہے گا۔ مقتدر اداروں کو اپنے عمل سے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ کسی جماعت یا سیاستدان کے خلاف نہیں۔ نہ ہی کسی جماعت یا سیاستدان کی وہ الیکشن میں حمایت یا مخالفت کریں گے ۔عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر بننے والے مقدمات کا سلسلہ بھی تھم جانا چاہیے۔ یہ ایک لاحاصل مشق ہے۔ جو کسی لیڈر کو کمزور نہیں بلکہ مقبول بناتی ہے۔کم ازکم گزشتہ ایک برس کا تجربہ یہی سبق دیتاہے۔ ٭٭٭٭٭