گزشتہ چند روز سے جو پر تشدد احتجاج دیکھنے میں آیا ہے اور جس کے نتیجے میں نہ صرف کئی انسانی جانیں چلی گئیں بلکہ سرکاری اور نجی املاک کو بھی جس بے دردی کے ساتھ لوٹا اور جلایا گیا ہے و ہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اسے روکنے میں انتظامیہ جس بری طرح ناکام ہوئی ہے وہ انتہائی تشویش ناک صورت حال کو ظاہر کرتی ہے۔اس احتجاج کی شدت پنجاب بالخصوص لاہور ،خیبر پختون خوا اور اسلام آباد میں زیادہ رہی۔ یہ پر تشدد احتجا ج پاکستان تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے فورا بعد شروع ہوا اور جلد ہی اس نے اپنے ( شایدطے شدہ ) راستوں کا انتخاب کرتے ہوئے وہ سب کچھ کر ڈالا جس کا وہ اظہار کرنا چاہتے تھے۔ بالخصوص لاہور میں جناح ہائوس جو کو ر کمانڈر کی رہائش گاہ تھی اس کی تباہی انتہائی چونکا دینے والی تھی۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس طرح کے پر تشدد احتجاج کی یہ صورت پہلی بار نہیں ہوئی تھی ۔اس سے پہلے بھی سیاسی احتجاج پرتشدد ہوتے رہے ہیں ۔ستائیس دسمبر 2007 کو جب بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا تو رد عمل کے طور پر کراچی میں ایک تباہ کن احتجاج شروع ہوا جس نے پورے سندھ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور اسی دوران بے نظیر کے شوہر جناب آصف زرداری کا ’’پاکستان کھپے ‘‘ کا وہ معروف نعرہ بلند ہو کر زبان زد عام ہوا اور جس نے آتش احتجاج کو کسی قدر ٹھنڈا کرنے میں مدد دی۔تاہم اس اندوہناک واقعہ کے نتیجے میں بھی احتجاج نے وہ رخ اختیار نہیں کیا تھا جو عمران خان کی گرفتاری پر ان کے کارکنوں یا ان کی آڑ میں ملک دشمن عناصر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیا۔ عمران خان کی گرفتاری کی قانونی ( اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق) یا غیر قانونی ( سپریم کورٹ کے مطابق) نوعیت کی بحث اپنی جگہ اہم ہو سکتی ہے مگر کیا یہ صورت حال قابل گرفت نہیں ہونی چاہیئے جو ان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہوئی یا پیدا کی گئی اور جس میں ایک طرف عمران خان کے حمایتی مشتعل ہجوم نے لاہور میں جناح ہائوس میں داخل ہوکر جس طرح بے خوفی کے ساتھ اور کسی مزاحمت کے بغیر تباہی پھیلائی ،لوٹ مار کی اور وہاں موجود تنصیبات کو نقصان پہنچایا اور اس سے ریاستی اختیارپوری شدت کے ساتھ چیلنج ہوا تو دوسری طرف ریاستی انتظامیہ نا معلوم وجوہ کے باعث بے بسی کی تصویر بنی رہی۔ ان واقعات کے نتیجے میں ہونے والے جانی ومالی نقصانات کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ریاست کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی کیسے ہوپائے گی۔ عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت عظمی اس سے لاتعلق نظر آئی۔ حیرت انگیز طور پر اعلی عدلیہ نے عمران خان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنی گرفتاری کے بعد ہونے والے پر تشدد واقعات کی مذمت ضرورکر دیں۔سیاسی قیادت کے لئے اس طرح کی صورت حال میں یہ کہنا کافی سہل رہتا ہے کہ ان کا احتجاج تو پر امن تھا اور کسی بھی پر تشدد کاروائی سے ان کی جماعت اور ان کے کارکنوں کا کوئی تعلق نہیں ۔ جیسا کہ عمران خان نے بھی یہی کہا۔ اس بیان میں جزوی صداقت تو ہو سکتی ہے مگر اسے مکمل سچ مان کر احتجاج کرنے والی سیاسی جماعت یا کسی بھی گروہ کو بری الذمہ قرار دینا قرین انصاف نہیں ۔ہونا تو یہ چاہیئے کہ سڑکوں کی بندش، جلائو گھیرائو ،توڑ پھوڑ،آتش زنی، نجی اور سرکاری املاک کو تباہ کر دینے والے ہر واقعہ کی ذمہ داری احتجاج کرنے والی سیاسی جماعت اور اس کے قائدین پر ڈالی جا ئے اور عدالت عظمی کی جانب سے ہر نقصان کی تلافی کا پابند بھی انہیں کیا جانا چاہیئے۔محض معذرت یا مذمت سے اتنے بڑے قومی نقصانات سے سیاسی جماعتوں کی گلو خلاصی نہیں ہونی چاہیئے۔یہ تحریک انساف ہی نہیں باقی جماعتوں کے لئے بھی سبق ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 9 مئی کے بعد سے ہونے والے پر تشدد احتجاج کے نتیجے میں 32 ارب روپے سے زائد کے نقصانات کا تخمینہ لگا یاگیا ہے ۔یہ بات عموما کہی جاتی ہے کہ احتجاج کرنا قانونی طور پر ایک سیاسی حق ہے۔ بے شک ایسا ہی ہے مگر احتجاج کس طرح کرنا ہے قانون نے اس کا بھی تو تعین کرتا ہے جس کا کوئی بھی کبھی بھی ذکر کرنا مناسب نہیںسمجھتا۔ حکومت کی کسی پالیسی یا طرز عمل پر اختلاف پر احتجا ج ضرور کیجئے مگر یہ حق کس قانون اور آئینی ضابطے میں درج ہے کہ سڑکوں کو اس طرح بند کردیا جائے کہ ایمبولنس اور آگ بجھانے والی گاڑیوں کو بھی نہ گزرنے دیا جائے۔ گزرنے والی ہر گاڑی کو پتھر مارے جائیں یا انہیں جلا دیا جائے۔ریلوے ٹریک بند کردئے جائیں۔سرکاری اور نجی عمارتوں کو نقصان پہنچایا جائے۔اس طرح کے احتجاج کا نہ تو کوئی قانونی حق موجود ہے اور نہ ہی اسے گوارا کیا جا سکتا ہے۔ آئین میں موجود تمام سیاسی اور قانونی حقوق ہر شہری کو اس صورت میں ہی حاصل ہیں جس سے کسی دوسرے کے حقوق متاثر نہ ہورہے ہوں۔ریاست کے تمام شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت وقت کی آئینی ذمہ داری ہے اگر کوئی حکومت اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں مسلسل ناکام ہو تو اس کا اختیار حکومت کا قانونی حق (LEGITIMACY ) باقی نہیں رہتا یا نہیں رہنا چاہیئے مگر پاکستان میں حکومتوں کے قیام ، استحکام اور تسلسل کے لئے قانونی تقاضوں اور عوامی حمایت کے علاوہ کچھ اور اداراتی تائید کی بھی موجودگی ضروری اور اہم سمجھی جاتی ہے۔ موجودہ سیاسی انتشار او ر بد تر انتظامی صورت حال میں ریاست کے تمام ہی اداروں میں افتراق شدت کے ساتھ نمایاں ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ نامکمل اور بھرپور عوامی تائید سے محروم ہو چکی ہے، اداروں کی تکریم میں نمایاں کمی آچکی ہے اور اعلی عدالتوں کے فیصلے غیر جانبداری کے تاثر سے خالی ہوچکے ہیں ۔ ایسے میں ریاست کے چوبیس کروڑ عوام امید و بیم کے درمیان حیرت زدہ ہیں !!