کہتے ہیں یہ بلاوا ہوتا ہے،کوئی سالوں تک منصوبے بناتا رہتا ہے مگر حاضری نصیب نہیں ہوتی اور کچھ گناہگاروں پر یوں نظر کرم ہو جاتی ہے کہ خود ان کے گمان تک میں نہیں ہوتا۔اُس کے بھید وہی جانے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جوانی میں حج مل جائے تو خوش قسمتی کی معراج ہوتی ہے۔یہ سبھی خوش نصیبیاں مجھ پہ رحمت بن کے وارد ہوئیں ۔ عمرہ و حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں پل پل دل کی کیفیت ایک خاص طرح کے خوشگوار احساس سے روشناس ہوتی رہتی ہے۔ پہلی بار بیت اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والا شخص اپنی دلی کیفیت بیان کر ہی نہیں سکتا ۔یہاں تو ہر مقام پہ دل ایک نئی کیفیت سے گزرتا ہے، حرم میں ہوں تو کیفیت الگ، مطاف میں الگ اور مقام ابراہیم پہ الگ۔سعی کے لیے صفا و مروہ پہنچیں تو ذہن صدیوں پیچھے کا سفر کر کے اس گھڑی کو محسوس کرنا چاہتا ہے، جب بی بی حاجرہ یہاں بے چینی کے عالم میں دوڑی تھیں۔پھر غار حرا جائیں تو چشم تصور پہلی وحی کا منظر ڈھونڈتی پھرتی ہے، غار ثور پہنچیں تو نبی رحمت کی مشکلات کا سوچ کر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ عرفات ، منیٰ ، مزدلفہ ،جمرات ،مسجد نمرہ، مسجد خیف، مسجد قبا اور پھر مسجد نبوی۔ایک ایک مقام ایک نسبت سے جڑا ہے۔ہر وقت یہی خیال دل و دماغ پہ چھایا رہتا ہے کہ نبی رحمت یہاں سے گزرے ہوں گے، یہاں قیام کیا ہو گا، یہاں خیمہ لگایا ہو گا، یہاں سجدہ ریز ہوئے ہوں گے، یہاں خطبہ دیا ہو گا، یہاں بیٹھتے ہوں گے، اس پہاڑ پہ گئے ہوں گے، اس بازار سے گزرے ہوں گے۔ کیا حسین تصور ہے جس میں یہاں شب و روز گزرتے ہیں۔ کہتے ہیں حج مشقت کا نام ہے ، یہ مشقت اگر فرائض و واجبات کی ادائیگی کے لیے کرنی پڑے تو کوئی حرج نہیں ۔ لیکن یہ مشقت اگر غیر ضروری چیزوں میں الجھا دے تو عبادت کا لطف جاتا رہتا ہے۔بطور صحافی میں بہت باریک بینی سے مشاہدہ کرتا رہا کہ حج کے لیے آنے والے پاکستانی کس کس پیکج پر کن کن سہولیات کے ساتھ یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اور کن کن لوگوں کو مسائل یا مشکلات کا سامنا ہے۔ایک وہ عازمین حج تھے جو پاکستانی وزارت حج کے زیر انتظام حج کے لیے پہنچے تھے۔ایسے پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں میں تھیں۔ان لوگوں نے تقریبا بارہ لاکھ روپے فی کس حکومت پاکستان کو ادا کیے اور خاصی سہولت کے ساتھ یہ فریضہ سر انجام دیا۔دوسری طرف ہزاروں لوگ ہر سال پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے ساتھ بھی حج کرتے ہیں۔اس ضمن میں اے،بی،سی،ڈی کیٹیگریز بنا دی جاتی ہیں۔اس سال پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے ساتھ صاحب ثروت لوگوں نے پندرہ لاکھ سے چالیس لاکھ روپے تک فی کس ادا کر کے بھی حج کیا۔تیسرے وہ لوگ تھے،جو شاہ سلمان بن عبد العزیز کی دعوت پر سعودی وزارت حج کے زیر اہتمام حج کے لیے سعودی عرب پہنچے تھے۔ اس سال اس دعوت پر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد ساٹھ کے قریب تھی جبکہ دنیا بھر سے تیرہ سو افراد کو شاہ سلمان نے حج کی دعوت پر اپنا مہمان بنایا تھا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پہ جانے والوں کے لیے تو انتظامات مثالی تھے۔انہیں بہترین ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا، عرفات میںمسجد نمرہ کے بہت قریب شدید گرمی سے نمٹنے کا انتظام لیے شاہی خیمے لگائے گئے تھے۔مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے رات گزارنے کے لیے بھی زمین پر قالین لگا کر اہتمام کیا گیا تھا۔منی میں بھی مسجد خیف کے سامنے بڑا مکتب ان مہمانو ں کے لیے مختص تھا۔یہ مکتب جمرات سے قریب ترین تھا۔کھانے ،ٹرانسپورٹ اور رہائش کی تمام سہولیات ان مہمانوں کو سعودی حکومت کی طرف سے دی گئی تھیں۔ پاکستانی سرکار کے زیر انتظام حج کرنے والوں کے لیے بھی انتظامات اچھے تھے۔ ہوٹل سے حرم تک ٹرانسپورٹ کا انتظام ،میڈیکل کیمپ میں قابل ڈاکٹرز کی ہمہ وقت دستیابی، خیموں میں ائیرکنڈیشنر اور مناسک حج کی ادائیگی کے لیے مناسب انتظام۔سرکاری حج کرنے والے حاجی مجموعی طور پر انتظامات سے بہت مطمئن تھے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ منیٰ میں کچھ لوگوں کا مکتب جمرات سے کافی فاصلے پر تھا۔ حج کے پانچ دنوں میں بسوں اور ٹیکسیوں کا سفر کافی دشوار ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ عرفات سے مزدلفہ اور منیٰ پیدل جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر کنکریاں مارنے کے لیے جمرات تو پیدل ہی جانا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں لاکھوں افراد کئی کلومیٹرروز پیدل چلتے ہیں ۔حج کرنے والوں میں چونکہ بزرگ افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ مشق ان کے لیے آسان نہیں ہوتی۔لیکن حکومت پاکستان کی کوشش ہوتی ہے جہاں جہاں ممکن ہو ان بزرگوں کو بسوں کے ذریعے پہنچایا جایا تاکہ وہ زیادہ تھکاوٹ کا شکار نہ ہوں اور ان کی عبادات میں خلل واقع نہ ہو۔ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے ذریعے حج کرنے والے یوں تو زیادہ آسانی کی خاطر زیادہ پیسے خرچ کرتے ہیں لیکن ان میں سے ہزاروں افراد اس سال بھی ایسے تھے جن کے ساتھ وعدہ خلافی کی گئی،وعدے کے مطابق ہوٹل نہیں دیے گئے،وہاں پہنچ کر کیٹیگری اے کو سی میں تبدیل کر دیا گیا،مکتب یا تو بہت دور دیا گیا یا سرے سے دیا ہی نہیں گیا،بہت سے لوگ منی میں سڑکوں پہ پڑے رہے،جن جوانوں کے لیے ممکن تھا وہ دن میں کئی کلومیٹر کا پیدل سفر کر کے اپنے ہوٹل چلے جاتے اور رات میںواپس آ کر کھلے آسمان تلے پڑے رہتے۔ایسے ٹور آپریٹرز کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جو حاجیوں کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں اور انہیں سہولیات سے محروم رکھتے ہیں۔میں روزانہ منیٰ میں سڑکوں ہزاروں لوگوں کو بے یارومددگار پڑے دیکھتا تو اپنے ساتھیوں سے پوچھتا یہ آخر کس پیکج پہ حج کرنے آئے ہیں۔ ہزاروں بزرگوں کو میں نے دیکھا جو شاید عام حالات میں ایک کلومیٹر بھی چل نہ سکتے ہوں لیکن یہاںشدید گرمی میں بیسیوں کلومیٹر روزانہ چلتے اور حج کے ارکان ادا کرتے رہے ۔ ایک نا دیدہ جذبہ ان کے اندر ایسی طاقت بھرتا ہے کہ یہ دوڑے چلے جاتے ہیں۔اللہ کے گھر میں موجود ہونے کا خیال ہر لمحے کے قیمتی ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ہر کوئی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ میرا ایمان ہے جسے اُس نے بلا لیے اس کی کوششوں کو قبول بھی کر لیا۔