شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑی میں دیکھا تو مجھے وہ دن یاد آ گئے جب شہباز شریف منی لانڈرنگ کے مقدمے میں حراست میں تھے اور لاہور کی نیب عدالت میں روزانہ پیش کیے جاتے تھے۔ اس مقدمے میںشہباز شریف اور حمزہ شہباز مرکزی ملزمان تھے جبکہ سی ایف او عثمان، قاسم قیوم، فضل داد عباسی اور دیگر کیش بوائز سمیت 11 شریک ملزمان تھے۔ ایک مشاہدہ میں کئی دن تک کرتا رہا کہ شہباز شریف ،حمزہ اور چیف فنانشل آفیسر محمد عثمان کو ہتھکڑی نہیں لگائی جاتی تھی، باقی سبھی ملزمان کو ہتھکڑیوں میں پیش کیا جاتا تھا۔ مجھے یہ تفریق کئی دن تک سمجھ نہ آئی تو میں نے ایک آفیسر سے پوچھا کہ یہ کیا چکر ہے آپ مرکزی ملزمان کو تو ہتھکڑیاں نہیں لگاتے جبکہ چھوٹے چھوٹے معاونین کونہایت تضحیک آمیز انداز میں ایک ہی زنجیر سے باندھ کے پیش کیا جاتا ہے، کیا اس سلسلے میں کوئی قائدہ یا قانون ہے یا نہیں؟ پولیس افسر نے جواب دیا یہ پولیس کا صوابدیدی اختیار ہے کہ جس ملزم کے بھاگنے کا ڈر ہو اُسے ہتھکڑی لگا دی جاتی ہے اور جس کے بارے میں یقین ہو کہ یہ نہیں بھاگے گا اسے بغیر ہتھکڑی کے پیش کیاجاتا ہے۔ اس اصول کے مطابق یقینا شاہ محمود قریشی کو پولیس حراست سے فرار ہونے کے ڈر سے ہی ہتھکڑی لگا کر پیش کیا گیا ہو گا۔ یوں پولیس نے نہایت کامیابی سے شاہ محمود قریشی کے فرار کی کوشش ناکام بنا دی۔ پچھلے کچھ عرصے میں ہم نے کئی صحافیوں کو ہتھکڑی میںعدالت پیش کیے جاتے دیکھا ہے۔تھوڑا ہی عرصہ پہلے کی بات ہے اسلام آباد میں دو نوجوان صحافیوں کو یوں عدالت میں پیش کیا جاتا تھا کہ دونوں کے ہاتھ ایک ہی ہتھکڑی سے بندھے ہوتے تھے۔ دھکم پیل میں بعض اوقات تو ڈر لگتا تھا کہ پتلے دبلے سے صحافی کی کلائی ہی جھٹکے سے نہ نکل جائے۔اس صحافی کا ساتھی محض ساتھی ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر معاونت کا الزام تھا۔مرکزی ملزم پر کار سرکار میں مداخلت کا الزام تھا اور یہ بھی کہ وہ پولیس کا ایک آنسو گیس کا شیل اپنے ساتھ لے گیا ہے جسے برآمد کرنا ہے۔قانون اس ملک میں مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے شہر یار آفریدی کو طویل حراست میں رکھا گیا، بار بار ان کے ایم پی او کے آرڈرز جاری کیے جاتے رہے ۔نقص امن کے خطرے کے پیش نظر انہیں یوں عدالت میں پیش کیا جاتا رہا کہ ان کے ہاتھ ہتھکڑی سے بندھے ہوتے اور اسی ہتھکڑی لگے ہاتھوں میں وہ قرآن پاک اٹھائے ہوئے ہوتے۔قرآن پاک کو انہوں نے کپڑے میں لپیٹ رکھا ہوتا اسی کپڑے میں بعض اوقات ان کی ہتھکڑی بھی چھپ جاتی۔ مگر خود انہوں نے اپنی اس ہتھکڑی کو دانستہ چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں مبینہ کرپشن کے سلسلے میں ایک اعلی سرکاری افسر کی گرفتاری ہوئی تو انہیں ہتھکڑی لگا کر لاہور کی عدالت میں لایا جاتا۔ وہ اپنے ہتھکڑی لگے ہاتھ کو اپنے پاجامے کی جیب میں یوں ڈالتے تھے کہ قمیض کا دامن ہتھکڑی کو کسی حد تک چھپا لیتا۔ انہیں لگتا تھا کہ گرفتاری کی خیر ہے لیکن ہتھکڑی ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گی۔ ہم نے سندھ کے ایک وڈیرے کے بگڑے قاتل چھوکرے شاہ رخ جتوئی کو ہتھکڑی میں لے جاتے دیکھا تو موصوف نے ہتھکڑی لگا ہاتھ فضا میں بلند کر کے وکٹری کا نشان بنا رکھا تھا اور چہرے پر بے شرموں جیسی ہنسی تھی ۔یہ ہنسی قانون کا مذاق اڑا رہی تھی، دنیا کو بتا رہی تھی کہ میں طاقتور ہوں کوئی بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پھر وہی ہوا وکٹری کا نشان بناتا یہ ہاتھ ہتھکڑی سے آزاد ہو گیا۔ قانون ہار گیا ،قاتل جیت گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہتھکڑی شرمندگی کا باعث ہوتی ہے یا نہیں ۔ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ مجرم کے لیے یہ شرمندگی کا باعث ہوتی ہے لیکن شاہ محمود جیسے لوگوں کے فخر میں یہ اضافہ ہی کرے گی۔اگرچہ شاہ محمود جیسے لوگوں کوہتھکڑی لگانے والوں کا مقصد محض تضحیک کرنا ہی ہوتا ہے لیکن غور سے دیکھاجائے تو ایسے سیاسی مقدمات میں یہ ملزم کی نہیں قانون کی تضحیک ہوتی ہے، نظام کی تضحیک ہوتی ہے۔ نظام میں خیر بچا ہی کیا ہے۔ عدالتی نظام تو اپاہج ہو چکا۔ عدالتوں کے فیصلے روزسرِ بازاررسوا ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ عدالتیں ایک ہی فیصلہ دس دس بار دیتی ہیں عمل درآمد نہیں ہوتا۔ عدالتیں اس قدر بے بس ہو گئی ہیں کہ فیصلوںکا مذاق اڑانے والوں سے باز پرس بھی نہیں کر سکتیں ۔ہماری عدالتیں اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کی طاقت سے محروم ہو چکی ہیں۔ فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا پھر بھی سماعتوں کر رسم بہرحال نبھائی جا رہی ہے۔ ابھی پاکستان کے ایک معروف سیاستدان اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے واپس آ رہے ہیں۔ سزا یافتہ ہیں ،سزا کاٹنے کے دوران عدالت سے چار ہفتے کی چھٹی لے کر علاج کرانے گئے تھے ۔ عدالت نے ایک سزا یافتہ مجرم کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے کر اپنی نوعیت کی ایک الگ ہی مثال قائم کی تھی۔ اب چار سال بعد یہ موصوف واپس آ رہے ہیں تو اصولا انہیں ائیر پورٹ کے احاطے میں ہی ہتھکڑی لگ جانی چاہیے کہ وہ سزا سے بھاگ گئے تھے اور عدالت کو مطلوب تھے۔ لیکن کیا ہم یہ مناظر دیکھیں گے کہ وہ ہتھکڑی لگا کر جیل لے جائے جائیں اور بعد ازاں جب عدالت میں پیش کیا جائے تو عدالت پوچھے جناب چار سال کہاں رہے ہیں ۔یا پھر عوام جمع ہوں گے اور جلوس بنا کر انہیں ان کے گھر چھوڑ آئیں گے۔یہ تو شاید 21 اکتوبر کو پتہ چلے گا لیکن خواہش بہرحال لوٹنے والے کی یہی ہے کہ اسے عزت و احترام کے ساتھ اس کے گھر چھوڑ دیا جائے ورنہ پلیٹ لیٹس گر جائیںگے۔ تضحیک ایک ایسی چیز ہے جو کرنے والے کا اختیار نہیں۔ محسوس کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اسے تضحیک سمجھتا ہے یا نہیں۔وہ جو جرم نہ کر کے بھی اپنی ہتھکڑی چھپاتے پھرتے ہیں انہیں تضحیک محسوس ہورہی ہوتی ہے۔اور جو قوم کو لوٹ کر بھی وکٹری کا نشان بناتے ہیں وہ تضحیک نامی شے سے واقف نہیں۔