چھ ماہ قبل کیا کیا خدشات تھے اور کیا دھڑکا لگا ہوا تھا۔اب چین کی بانسری ہے اور بجتی چلی جا رہی ہے۔ ہمارے زمانے میں سیاستدانوں کے کیسے کیسے قصے بیان ہوئے ہیں۔ انہوں نے کیسے کیسے محلات کھڑے کیے ہیں۔اسلام آباد سے دوبی تک دوبی سے لندن تک لندن سے سپین تک ۔ان سب کو اللہ کی کتاب کے الفاظ میں خشیتہ املاق کا سامنا تھا۔ تنگی کا ڈر۔اس دولت کے انبار کے چھن جانے کا خوف۔املاک کے ڈھیر کا ریت کے دانوں کی طرح مٹھی سے پھسل جانے کا خوف۔ بے مایہ ہونے کا ڈر۔اربوں نہیں کھربوں کے لٹنے کا خوف۔انہیں خشیتہ الاملاق کا دھڑکا قطعاً نہیں۔اب وہ ڈر کافور ہو گیا۔ہم نے غیر ممالک میں تو نہیں البتہ اپنے وطن ِعزیز میںان کے طلسم کدے دیکھے ہیں۔ ان طلسم کدوں کے باہر اونچی اونچی فصیلیں دیکھی ہیں جن کے اندر ہمارے لیڈران رہتے ہیں۔ ہمیں ایک آدھ محل میں جانے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ ان محلات کے چوگرد دیوار کوئی سد ِ ذالقرنین کھینچی گئی ہے۔ویسے یہ دیوار قفقاز کے علاقے میں ذوالقرنین نے بنوائی تھی اس علاقے کے لوگوں کو شمال سے آنے والے جتھوں کی یلغار کا خوف تھا تب یہ دیوار بحیرہ اسود اور بحیرہ اخزر Caspian Seaکے درمیان بنائی گئی تھی مگر ہمارے لیڈران نے یہ دیوار ہم لوگوں ہم ووٹرز سے بچنے کے لیے کھڑی کی ہیں۔کہیں کوئی ووٹ دینے والا ادھر سے غلطی سے دیکھ ہی نہ لے۔بڑے بڑے محلوں والوں میں سے کوئی قید ہے کوئی ضمانت پر اور کوئی سات سمندر پار۔ ایسے ہی ایک محل میں ایک دو سال قبل کسی کے پاسپورٹ کے منسوخ ہونے کی جھوٹی سچی خبریں تواتر سے پھیلائی جا رہی تھیں۔یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو فی زمانہ بہت اہم ہے۔ پاسپورٹ لفظ کا مطلب یہ تھا کہ کسی بندرگاہ سے گزرنا۔اس وقت نہ ہوائی جہاز تھے نہ سرحدیں تھیں نہ سرحدوں کی پابندیاں تھیں۔کسی کی کوئی شناخت ایسی نہیں تھی جیسے آج ہے سو سفر پر کسی قسم کی پابندی نہیں تھی جیسے فاتحین پر کوئی پابندی نہیں تھی ویسے عام عوام بھی اس پابندیوں کی پابند نہیں تھی۔فاتحین تلوا ر کے زور پر دنیا فتح کرتے تھے کچھ مسخر القلوب ہوتے تھے وہ دلوں کو فتح کرتے بڑھتے تھے۔ تلوار کے زور پر فتح کرنے والے زیادہ لوٹ کر مار کر واپس اسی جا لوٹ جاتے تھے مگر دلوں کو فتح کرنے والے وہیں کے ہو جاتے تھے جہاں ان پر دل فدا کرنے والے ہوتے تھے۔کہاں کہاں سے دلوں کو فتح کرنے والے اور کہاں آ کر رکیکوئی غزنی سے نکلا اور لاہور کا بادشاہ بن گیا کوئی بلخ میں آنکھ کھولتا ہے اور قونیہ میں میں آنکھ بند کرتا ہے ۔نظام الدین اولیا کے نانا بخارا میں پیدا ہوتے ہیں اور بغیر کسی پاسپورٹ کے بدایون ڈیرہ جما لیتے ہیں۔ خواجہ مودود چشتی جو چشتیہ سلسلے کی مودودی شاخ کے بانی ہیں کی اولاد بلوچستان کے مقام پشین میں دلوں کو مسخر کر کے ابدی نیند سو رہے ہیں۔ان کے برعکس زمینوں کو تاراج کرنے والوں کی الگ داستان ہے۔برطانیہ جس نے کی براعظموں پر حکومت کی ایک روایت کے مطابق اسی ملک نے پاسپورٹ کا سسٹم کی بنیاد رکھی کی اپنی ملکہ کسی پاسپورٹ کی مکلف نہیں جہاں مرضی جہاز پر بیٹھے اور دنیا کے کسی خطے میں جہاز اتار لے کوئی پوچھنے والا نہیں۔پاسپورٹ کو پاس پورٹ لکھنے سے اس کا مطلب تھوڑا اور واضح ہو جاتا ہے یہ ایسا ہی پاس تھا جیسیبھٹو دور میں طلبا کے لیے ریلوے اور بس پاس جاری یوتے تھے یہ ویسا ہی پاس ہوتا تھا۔ سٹوڈنٹ پاس اور بہت سے اچھے کاموں کی طرح ضیا حکومت نے منسوخ کر دیے تھے اور طالب علمی کے خمار کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔اس ضیائی تاریک دور کے بعد ہم اگر بھولے سے کسی بس پر سوار ہوتے اور وہی پاس نکالتے جس پر لکھا ہوتا تھا کہ حامل ہذا درسگاہ کا باقاعدہ طالب علم ہے تو پی این اے کی تحریک کی مقبولیت کی وجہ سے پہلے تو بس کنڈیکٹر ہمیں ایسے دیکھتا جیسے استاد مولا بخش نے پطرس کے سائیکل کو دیکھتا تھا کہ آیا یہ مزار جو چیز لے کر پھر رہا ہے یہ سائیکل ہی ہے یا کچھ اور۔بس بس کی سواریاں اس کنڈکٹر کے ساتھ مل کر ہمیں ایسے ہی دیکھتیں۔آج اگر پطرس زندہ ہوتے تو وہ رانا ثنااللہ کی شاگردی اختیار کر لیتے۔نواز شریف جس خستہ سے مکان میں آجکل مقیم ہیں اگر ہم جیسے کسی کو وہاں ساری عمر گزارنے کی اجازت مل جائے تو ہم نے بھی پاسپورٹ کس لیے رکھنا ہے ہم تو پاسپورٹ جیب میں لیے اس لیے پھرتے ہیں کہ کسی ملک کو اگر اقامہ دینے کی بھی ضرورت ہو تو ہم حاضر ہیں۔ اس بارے میں تو دوسری رائے ہی نہیں کہ نون لیگ کے سربراہ نے ہی نہیں اس کی جماعت کے ایم این ایز نے بھی جی بھر کے موجیں کیں کہ نہ حساب کتاب سے باہر۔اگر کسی سرکاری اہلکار نے کرپشن کی ہے تو ان حاکموں کا فرض تھا کہ ان کو روکتے یہ انہیں روک سکنے کی اخلاقی جرات سے تہی تھے سو یہ خود انہوں نے بھی وہی راستہ اپنانے میں دیر نہیں کی اور اب تک Vicious چکر سے نکل ہی نہیں پائے۔برا ہو لیگ آف نیشنز کا جس نے اس پاسپورٹ کا اجرا اور اس کے قواعد و ضوابط بنوائے۔مگر اب مختلف ممالک میں قیام کی آفرز نے ان کا پاسپورٹ کا مسئلہ ہی ختم کر دیا ہے۔دنیا میں اس وقت ایک ہی شخصیت ہے جو اس پاسپورٹ سے بالا ہے جو پاسپورٹ کا محتاج ہی نہیں۔ اب اگر نواز شریف کو اس پاسپورٹ سے بے نیاز ہو جاتے تو دنیا میں وہ دوسری مثال ہوتے۔ ویسے وہ بھی تو کسی بادشاہ سے کم بھی نہیں۔ویسے بسا اوقات سٹیٹ لیس ہونا اعزاز کی بات ہوتی ہے تب اس کے پیچھے زندگی سے بڑا مقصد ہوتا ہے جو اس سٹیٹ لیس شہری کو نہ صرف عالمی شہری بنا دیتا ہے اور اسے ایک الوہی طاقت حاصل ہو جاتی ہے۔ مگر صد حیف مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد