16 دسمبر1971 جب پاکستان دو لخت ہوا تو اس کے قیام کو محض 23 سال ہی ہوئے تھے ۔اتنے کم عرصے میں کسی ریاست کا یوں ٹوٹ جانا سیاسی تاریخ میں ایک تاسف انگیز ، تجزیہ طلب اور سخت احتساب کا واقعہ سمجھا جا تا ہے۔ اور اس کے اسباب و محرکات کا گہرے غور و فکر کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ آ ئندہ اس سے محفوظ رہنے کی حکمت عملی اختیار کی جاسکے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں اس المناک و اقعہ پر ایسا نہیں ہو سکا۔ ایک کمیشن جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں قائم کیا گیا تاہم اس کی رپورٹ اور اخذ کئے گئے نتائج سے قوم کو بے خبر ہی رکھا گیا۔ نہ کوئی ذمہ دار قرار پایا اور نہ اس قومی المیہ سے حکمرانوں نے کوئی سبق سیکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کا سفر آج بھی دائرے میں جاری ہے ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے متعلق حقائق کو بھی قوم سے اوجھل رکھا گیا اور حالات کا جو پہلو نظروں کے سامنے لایا گیا اس کے مطابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بنگالی محب وطن نہیں تھے ،وہ پسماندہ اورغربت کا شکار تھے ۔ ان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مسائل پاکستان کے لئے ایک بوجھ تھے۔اس سوچ کا اظہار ابتدائی دنوں میں ہی ہو گیا تھا جس کی بے شمار مثالیں اب تاریخ کی کتابوں میں جگہ بنا رہی ہیں ۔پاکستان کے قیام کے وقت اس کا مشرقی حصہ ( اس وقت مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش ) آبادی کے اعتبار سے ا کثریتی حصہ تھا ۔مگر اس کی سیاسی اور انتظامی حیثیت کو کمتر سمجھا گیا ۔دارالحکومت کا قیام ہو یا وزیر اعظم کا انتخاب ، افواج کی کمان سونپی جانی ہو یا ان کے ہیڈ کوارٹرز کے مقامات کا تعین ،، قانون ساز اسمبلی میںنمائندگی ہو یا قومی وسائل کی تقسیم ہو، بنگالی زبان کو اہمیت دئے جانے کا معاملہ ہو یا ان کی ثقافتی شناخت کو پاکستان کی قومی شناخت کے طور پر پیش کیا جانا ۔ہر جگہ، ہر معاملے میں ان کی حیثیت کو دانستہ کمتر سمجھا گیا ۔ 1947سے1970تک پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مشرقی پاکستانیوں سے قربانیاں ہی مانگی جاتی رہیں۔کبھی پیرٹی کے نام پر ( یہ وہ غیر جمہوری اور غیر سیاسی اصول تھا جس کے ذریعہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو مغربی پاکستان کی اقلیت کے مقابل قانون ساز ادارے میں مساوی نمائندگی کے لئے آمادہ کیا گیا تھا۔) تو کبھی قومی دفاع کے نام پر وسائل کی غیر متوازن تقسیم کے لئے۔اور وہ یہ قربانیاں دیتے ہی رہے ۔ تاہم 1970 کے انتخابات کے موقع پر جب ان کی آبادی کی اکثریت کے مطابق اسمبلی میں نمائندگی کا اصول تسلیم کر لیا گیا تو پھر انتخابات کے نتائج کے مطابق انہیں یعنی مشرقی پاکستانیوں کو اقتدار منتقل کرنے میں ہچکچاہٹ اور تردد کا اظہار کیا جانے لگا۔یہی وہ وقت تھا جب پاکستان کے مغربی حصے کی مقتدرہ کو مشرقی پاکستان کے لوگوں کی 23 سالہ قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان کے وفاق کا اقتدار ان کے سپرد کردینا تھا ۔مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔ اس کے جواز میں خواہ اگرتلہ سازش کیس کو پیش کیا جائے یا پھر عوامی لیگ کے ان چھہ نکات کو ،کہ جس کی بنیاد پر عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی 300 نشستوں کے لئے ہونے والے انتخابات میں مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے 160 پر کامیاب ہو کر واضح اکثریت حاصل کی تھی، کسی بھی طرح درست رویہ ہر گز نہیںتھا۔ جمہوری سیاسی اصول کے مطابق عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کئے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیئے تھی مگر یہ رکاوٹ ڈالی گئی، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ناانصافیوں کی تاریخ بدلنے کا یہی وقت تھا ،اب اگر وقت کی آواز نہ سنی گئی وقت کی نبض پر ہاتھ نہ رکھا گیا تو فیصلہ تاریخ کے ہاتھوں ہو گا ۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اس وقت کی عسکری اور سیاسی اشرافیہ نے عوامی لیگ کے چھہ نکات کی موجودگی کے باعث مشرقی پاکستان کو وفاق کا اقتدار دینا گوارا نہیں کیا البتہ اس کی علیحدگی کی راہ ہموار ہو جانے دی ۔ ان کے خیال میں عوامی لیگ کے چھہ نکات کی عملداری سے وفاق کمزور ہو رہا تھا ۔ یہ کس طرح کی سیاسی دانشمندی تھی کہ وفاق کو کمزور ہونے سے بچانے کی حکمت عملی نے وفاق کو ہی ختم کردیا ۔یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی اور معاشی ناانصافیوں کے خلاف نفرت اور اشتعال موجود تھا اور اس نفرت انگیز ی کو عوامی لیگ نے اپنے سیاسی پروگرام میں جگہ دے کر انتخابی کامیابی حاصل کی تھی ۔اقتدار منتقل کرنے میں تاخیر سے مشتعل اور منافرت پر مبنی جذبات بے قابو ہوئے۔ خانہ جنگی اور پھر بھارت کے ساتھ، جو اس موقع کا منتظر تھا ، جنگ ہوئی اور پاکستان دو لخت ہوگیا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے ، عزتیں پامال ہوئیں ،سیاسی اور عسکری ہزیمت مقدر ہوئی اور پاکستان کا ریاستی وقار بھی متاثر ہوا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ عاقبت نا اندیش فیصلوں ،غیر جمہوری طرز عمل اور انتظامی و عسکری اشرافیہ کی مقتدر رہنے کی حرص سے آلودہ رہی ہے۔قیام پاکستان کے وقت اور اس کے بعد بھی سیاسی قیادت مشرقی پاکستان کے سیاسی رجحانات اورجغرافیائی حساسیت کا ادراک کرنے میں ناکام رہی اس پر مستزاد معاشی و سیاسی ناانصافیوں پر مبنی غلط فیصلوں نے مغائرت اور عصبیت کو منافرت میں تبدیل کردیا ۔اس صورت حال سے دانستہ اغماض برتا گیا اور مسلسل ایسے فیصلے کئے گئے جس کا نتیجہ المناک علیحدگی ہونا تھا ۔ اس المناک علیحدگی سے بچا جاسکتا تھا اگر مشرقی پاکستان کے سیاسی حقوق کو ابتدا ہی میں جمہوری اصولوں کے مطابق مان لیا جاتا، اگران کی اکثریت کو قابو کرنے کی حکمت عملی اختیار نہ کی جاتی ،اگر ان کی ثقافتی اور سماجی حیثیت کو کمتر نہ سمجھا جاتا اور انہیں مغربی پاکستان کا ایک ذیلی یا طفیلی حصہ نہ سمجھا جاتا یا پھر تقسیم ہندوستان کے وقت ہی مشرقی اور مغربی دو پاکستان کی حیثیت سے ریاستوں کی تشکیل کو ممکن بنا لیا جاتاتو یہ علیحدگی خون آلودنہ ہوتی۔ ْسیاسی اور ریاستی معاملات میں اگر قیادت صحیح وقت پر درست فیصلوں سے اجتناب کرے اور اس کے ادراک سے پہلو تہی کرے تو پھر تاریخ اور واقعات کا جبراپنا فیصلہ کرتے ہیں خواہ وہ فیصلہ کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو اور نتائج کتنے ہی نا پسندیدہ ! ہر سال کی تقویم میں دسمبرکی 16 تاریخ موجود ہوتی ہے اور اس شام کی یاد دلاتی ہے جب بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہوئی تھی۔وہ خبرتمام تر تلخیوں کے ساتھ آج بھی سماعتوں میں گونجتی ہے ،دل افسردہ ہو جاتا ہے اور آنکھیں اشک بار مگر جنھیں اس تاریخ سے کچھ سیکھنا چاہیئے تھا وہ آج بھی اسی ڈگر پر ہیں ان ہی رویوں کے سا تھ اقتدار کی بساط پر اپنی وہی پرانی چالیں چل رہے ہیں ۔عالمی اور علاقائی سیاسی تبدیلیوں کو سمجھے بغیر قومی سیاست کو نفرت اور عصبیت کی آگ کی طرف لے جارہے ہیں ۔ ریاست معاشی گرداب میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ پاک افغان سرحد پر کشیدگی بڑھتی جارہی ہے ،بلوچستان اور سابقہ قبائلی علاقے ابھی تک شورش کی زد میں ہیں۔عوامی مسائل لا ینحل ہوتے جارہے ہیں لگتا ہے سیاسی قیادت بصارت اور بصیرت دونوں سے محروم ہوچکی ہے۔ ریاستی مفادات کو ذاتی، گروہی اور جماعتی مفادات کی نذر کیا جارہا ہے مگر کب تک یہ سلسلہ چل پائے گا ؟ یہ وقت حکمرانوںسے سیاسی دانائی کا متقاضی ہے ۔ریاست کا استحکام سب کی اولین ترجیح ہونا چاہیئے۔معیشت اور قومی سلامتی پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہی ریاست کے ساتھ وفاداری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی مقتدر طاقتیں 16 دسمبر کی تاریخ کو اپنے رویوں میں تبدیلی کی بنیاد بنائیںْ اور یہ عہد کریں کہ موجودہ پاکستان میں کسی بھی طرح 16 دسمبر1971کی تاریخ نہ آنے پائے۔خدا کرے کہ امید کا یہ دیا روشن رہے۔