اکنامک ریفارمز کی اس بار ریاست اور حکمران اشرافیہ کو ضرورت پڑ گئی ہے‘ اس لئے امید رکھیں معاشی بحالی کا ایجنڈا اتفاق رائے سے طے ہو جائے گا‘ ڈر یہ ہے کہ عام آدمی کی پارلیمنٹ اور فیصلہ سازی کے دیگر فورمز میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ریفارمز کا بوجھ پہلے سے افلاس کی زد میں آئے طبقات پر نہ ڈال دیا جائے۔ ایسا ہوا تو غریب مر جائے گا لیکن جینا حکمران اشرافیہ کے لئے بھی ناممکن ہو جائے گا۔ اس لئے بچت‘ شفافیت‘ آمدن میں اضافہ اور قرض اتارنے کے تمام مراحل میں بالائی طبقات کو اپنا حصہ بڑھانا ہو گا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جب بھی اکنامک ریفارمز کی بات ہوتی ہے اسے ٹیکسوں میں اضافہ اور آئی ٹی سیکٹر کے لئے مواقع کے نکات پر استوار کیا جاتا ہے۔ میری دانست میں حکومتوں نے آمدن بڑھانے کے لئے ڈائریکٹ ٹیکس کا سسٹم نافذ نہ کر کے بالائی طبقات کے حصے کے ٹیکس ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شکل میں بجلی‘ گیس‘ پٹرول کے صارفین پر ڈال دیے ۔اور بھی کھاتے ہیں جہاں ان ڈائریکٹ ٹیکس لیا جا رہا ہے‘ گمنام اور بلا جواز ٹیکسوں نے عام آدمی کو چھوٹا موٹا کام کرنے سے خوفزدہ کر دیا ہے‘ وہ تھوڑی ہمت کر کے ریڑھی یا ڈھابہ کھول بھی لے تو بلدیہ ‘ پولیس‘ ٹریفک اہلکار‘ مقامی تاجر کمیٹیاں‘ سیاسی بھتہ خوروں سمیت درجنوں جیبیںبھرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ جو یہ سب کچھ کر لیتا ہے وہ پھر دیانتداری سے کاروبار نہیں کرتا۔ ہر وقت بھتہ خوروں اور اپنا منافع دوگنا کرنے کے لئے بددیانتی کی منصوبہ بندی جاری رکھتا ہے۔ ہمارے اردگرد جو مقامی معیشت دکھائی دیتی ہے وہ اسی بد دیانتی کے ماحول اور اصول پر زندہ ہے۔ معاشی ترقی کی فاختہ کو ہر طبقہ الگ رنگ میں دیکھتا ہے،خود حکومت اسے اپنا خزانہ بھرے ہونے سے تعبیر کرتی ہے جبکہ بہت سے لوگ دال روٹی کی فکر سے کچھ آزاد ہونے کو معاشی ترقی کہتے ہوں گے۔ اقتصادی ترقی کا مطلب ایک معیشت میں گڈز اور سرسز کی پیداوار میں اضافہ ہے۔ کیپٹل گڈز، لیبر فورس، ٹیکنالوجی اور انسانی سرمائے میں اضافہ معاشی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ 2022 میں زراعت نے قومی جی ڈی پی میں تقریباً 22.35 فیصد حصہ ڈالا، 20.42 فیصد صنعت سے آیا اور جی ڈی پی میں معیشت کا نصف سے زیادہ حصہ خدمات کے شعبے سے آیا۔ پاکستانی معیشت کے تین اہم شعبے ہیں۔عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق پاکستان ترسیلات زر کے ٹاپ 10 وصول کنندگان میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی معیشت کے بڑے شعبے زراعت، صنعت اور خدمات کے ہیں جن کا جی ڈی پی میں بالترتیب 19 فیصد، 20 فیصد اور 61 فیصد حصہ ہے۔ دو سال پہلے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کورونا کے بعد کی دنیا میں جنوبی ایشیائی معیشتوں کی ترقی کے لیے اقتصادی ڈیٹا سیٹس شامل ہیں، جیسے پاکستان، بھارت، سری لنکا، افغانستان، بنگلہ دیش اور نیپال۔یہ رپورٹ مذکورہ ممالک میں معاشی ماہرین اور پالیسی سازوں کو کوویِڈ بحران کے معاشی کمی کے اثرات سے نکلنے کے لیے جامع شواہد پر مبنی پالیسیوں کی تشکیل اور نفاذ کے لیے ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔ رپورٹ نے حالیہ معاشی رجحانات، جنوبی ایشیا پر یوکرین کے تنازعے کے معاشی اثرات، ترقی کے تخمینے، خطرے کے منظر نامے اور یہ نتیجہ برآمد کیا ہے کہ معیارات کو از سر نو تشکیل دینے کے لیے کچھ اقتصادی ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوں گی۔اسے معاشی ریفارمز کہہ لیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پورے جنوبی ایشیائی خطے کی معیشت بحال ہو رہی ہے،پاکستان میں معاشی بحالی تمام شعبوںاور آبادی کے گروپوں میں غیر مساوی رہی ہے۔یہاں ڈیجیٹل سروس کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، دیگر شعبوں جیسے کہ تعمیرات، نقل و حمل، اور سیاحت ابھی تک مکمل طور پر بحال ہونا باقی ہے۔ پاکستان میں آبادی کا بڑا حصہ یعنی انسانی سرمایہ بیکار پھر رہا ہے۔ہنر کی ترقی کے لئے جو سرکاری اقدامات کئے گئے وہ مقامی اور بیرونی منڈیوں میں پاکستانی نوجوانوں کو معقول روزگار فراہم نہیں کر پا رہے۔مستقبل میں یہی حالت رہی تو تباہی کا ڈر ہے۔ انسانی صلاحیتوں کو بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے نکھارا جا سکتا ہے ۔ بہتر مہارتیں افراد کو پیداواری عمل میں زیادہ مددگارہونے اور زیادہ پیسہ پیدا کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ہنر نہ صرف سرمایہ کاری پر منافع کی شرح کو بڑھاتا ہے اور روزگار میں اضافہ کرتا ہے بلکہ مختلف ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کو بھی یقینی بناتا ہے۔اس کا تجزیہ کرنے کے لئے پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت، مزدوروں کی نقل و حرکت اور پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ناگزیر آلات ہیں، اس طرح فرموں کی مسابقت کو بڑھانے اور لیبر مارکیٹ کے عدم توازن کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں، مارکیٹ طلب اور رسد کے قوانین کے ذریعے قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، جب کافی کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے، منافع کا متلاشی کاروباری اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے قیمتوں کو بڑھا دیتا ہے۔ اگر اسی وقت، چائے پینے والوں کی خواہش کم ہو جاتی ہے تو کاشتکاروں کو کم قیمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور مجموعی پیداوار میں کمی آئے گی۔یہ طلب میں کمی طویل عرصہ رہیتو کچھ سپلائرز کاروبارچھوڑ بھی سکتے ہیں۔ چونکہ صارفین اور سپلائرز ان اشیا کے لیے ایک نئی "مارکیٹ کلیئرنگ پرائس" پر گفت و شنید کرتے ہیں، اس لیے پیدا کی جانے والی مقدار کم و بیش عوام کی ضروریات سے میل کھاتی ہے۔ ایک حقیقی نظام کے تحت، پیداوار اور قیمتوں کی سطح کا تعین کرنا حکومت کا کردار ہے۔اصل چیلنج ان فیصلوں کو صارفین کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔پاکستان میں نکس اکانومی کے چکر میں سب کچھ بے لگام چھوڑ دیا گیا۔با اثر ، سیاسی سرپرستی والے کاروباری افراد نے باقی لوگوں کا راستہ روکا،اپنی مناپلی قائم کی اور نتیجہ یہ کہ لوگ سازگار ماھول نہ ملنے پر دوسرے ملکوں میں سرمایہ اور ہنر لے گئے۔پاکستان سے جب یہ سب کچھ جا رہا تھا تو سیاستدان آپس میں لڑ رہے تھے، ایسے لوگوں کو معاشی بہتری کی ذمہ داری دی جا رہی تھی جو حقائق سے واقف بھی نہ تھے۔ پاکستان کو ترقی پذیر معیشت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ تازہ مردم شماری کے مطابق لگ بھگ پچیس کروڑ افراد کی آبادی کے ساتھ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے مطابق فی کس آمدنی کے لحاظ سے پاکستان کی پوزیشن 161 ویں اور جی ڈی پی کے لحاظ سے 138 ویں نمبر پر ہے۔ وزیر اعظم کے پاس معاشی بحالی کے لئے کئی اہم راستے ہیں،سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل جیسا مفید ادارہ ہے،ٹیکسٹائل ، زراعت،ہارٹیکلچر،آئی ٹی ،ہنر مند افرادی قوت اور سما ایند میڈیم انٹرپرائزز کا شعبہ ہے۔بس توانائی کو سستا کرنا اور کاروباری گورننس کو شفاف بنانا ہے۔یہ دو کام کر لئے تو معیشت قرض اتار پھینکے گی۔