ترکیہ میں گزشتہ روز چودہ مئی کو اِنتخابات کی پولنگ ہوئی ۔ تقریباً چھ کروڑ چالیس لاکھ سے زائد ووٹرز نے اَپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اگلے پانچ سالوں کے لیے ترکیہ کے صدر اور پارلیمنٹ کے 600 ممبران کا اِنتخاب کیا۔ پارلیمنٹ کے ممبران 87 اضلاع میں پارٹی کی فہرست کی متناسب نمائندگی سے منتخب ہوتے ہیں۔ نئے صدارتی نظامِ کے تحت یہ دوسرے صدارتی اِنتخابات ہیں۔ ترکیہ کے اگلے صدر کے چناؤ کے لیے ہونے والے یہ اِنتخابات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ترکی کے موجودہ صدر طیب اردوان صدارت کی تیسری مدت کے لیے اِنتخاب لڑرہے ہیں اور اِس مرتبہ ریپبلکن پیپلز پارٹی یا CHP سے حزب اختلاف کے رہنما کمال کلیک دار اوگلو سے انکا کانٹے دار مقابلہ ہے جو اِیک ممکنہ متبادل کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ کمال اوگلو کو رائے عامہ کے جائزوں میں برتری حاصل ہے۔ ریپبلکن پیپلز پارٹی یا CHP سے حزب اختلاف کے رہنما کمال کلیک دار اوگلو (Kilicdaroglu) نے ترکیہ کے موجودہ صدر اردگان کی صدر کی حیثیت سے میراث کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اے ٹی اے اتحاد کے سنان اوگن بھی صدر کے اِنتخاب میں حصہ لے رہے ہیں تاہم ہوم لینڈ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق امیدوار محرم انیس صرف تین دن قبل اِنتخابات کی دوڑ سے دستبردار ہو گئے ۔ ترکی کے الیکشن رولز کے مطابق صدارت کے لیے، پہلے راؤنڈ میں ایک امیدوار کے لیے 50% سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی امیدوار نصف سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر پاتا تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان رن آف ہوتا ہے جس میں جو امیدوار زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے کامیاب قرارپاتا ہے۔ موجودہ الیکشن کے لیے رن آف کا دن 28 مئی مقرر کیا گیا ہے۔ صدارتی امیدوار کے طور پر اہل ہونے کے لیے ایک ترک شہری ہونا ضروری ہے جس کی عمر کم از کم 40 سال ہو اور اس نے اعلیٰ تعلیم، کسی بھی شعبے میں بیچلر کی ڈگری مکمل کی ہو۔ کوئی بھی پارٹی جس نے پچھلے پارلیمانی انتخابات میں کم اَز کم 5 فیصد ووٹ حاصل کیے ہوں وہ امیدوار نامزد کر سکتی ہے۔ اِسی طرح مختلف سیاسی جماعتیں اِتحاد بنا کر اور اکثریتی ووٹ ایک ساتھ پاس کر کے بھی اجتماعی طور پر امیدوار کھڑا کر سکتی ہیں۔ آزاد امیدوار الیکشن لڑ سکتے ہیں اگر وہ رجسٹرڈ ووٹرز سے 100,000 دستخط جمع کر سکیں۔ صدارتی انتخابات کے بیلٹ پر تمام امیدواروں کے نام، پارٹی وابستگی اور تصاویر ہوتی ہیں۔ ووٹرز اپنی پسند کے امیدوار کے لیے "ہاں" پر مہر لگاتے ہیں۔ چونکہ صدر پانچ سال کی مدت کے لیے عوام کے ذریعے براہ راست منتخب کیا جاتا ہے، اس لیے اسے اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے عہدے سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ ترکیہ کے صدر کے اِنتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تین اہم شخصیات چودہ مئی کے صدارتی الیکشن میں امیدوار ہیں اور یہ مختلف سیاسی اِتحادوں کی نمائندگی کررہی ہیں۔ یاد رہے کہ 2017 میں ترکیہ میں صدارتی نظام کی طرف منتقلی ملک کے سیاسی منظر نامے کی تنظیم نو کا سبب بنی، جس کے نتیجے میں دو اہم سیاسی اتحاد قائم ہوئے جو "پیپلز الائنس" اور "نیشن الائنس" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ موجودہ صدر طیب اردوان اپنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اِے کے پارٹی) اور پانچ مزید پارٹیوں پر مشتمل سیاسی اِتحاد پیپلز الائنس کے مشترکہ امیدوار ہیں۔ صدر اردوان اور ان کی اے کے پارٹی 20 سال سے زائد عرصے سے اقتدار میں ہونے کے باوجود بھی عوام کے ایک خاص طبقے میں مقبول ہیں ۔اِس دفعہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں صدر اردوان جدید ترکیہ کے سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے حکمران بن جائیں گے۔ انہوں نے 2018 میں پہلے راؤنڈ میں 52.6 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ تجزیہ کاروں کی نظر میں کہ اردوان کی پالیسیوں کا مقصد ترکیہ کی سوفٹ پاورکو بڑھانا ہے، خاص طور پر مسلم دنیا میں۔ سلطنت عثمانیہ (جس نے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور بلقان کے وسیع حصوں پر صدیوں تک حکمرانی کی) کی میراث کے تسلسل کو قائم کرنا ہے۔ صدر اردوان کے جارحانہ مزاج نے بڑی طاقتوں کو ناراض کر دیا ہے جو محض ایک معاون کے طور پر ترکیہ کے تاریخی کردار کی زیادہ عادی ہیں۔ اِسی طرح، ترکیہ کا تیزی سے پھیلتا ہوا اثر و رسوخ بھی اردوان کی اپنی 'مسلم' بیان بازی کے ذریعے اسلامی نرم طاقت کا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے وہ سیاسی اور اقتصادی طور پر متعدد خطوں میں تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جس کی مثال شام اور لیبیا میں مداخلت ہے۔ صدارتی اِنتخابات میں دوسرے اہم امیدوار کمال کلیک دار اوغلو حزب اختلاف کے چھ جماعتی اتحاد "نیشن الائنس" کے مشترکہ صدارتی امیدوار ہیں۔ انہیں ترکیہ کی دوسری بڑی اپوزیشن پارٹی کرد نواز HDP کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کی قیادت کی، جسے جدید ترکیہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے قائم کیا تھا۔ سیاست سے پہلے وزارت خزانہ میں کام کیا۔ پھر 1990 کی دہائی میں سوشل انشورنس ادارے کی سربراہی کی۔ اِنتخابی سروے ان کی حمایت کو 50 فیصد کے قریب قرار دے رہے ہیں۔ صدر طیب اردوان کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے مقابلے میں اپوزیشن پارٹیوں پر مشتمل اِتحاد باالخصوص CHP نے کم از کم اَلفاظ کی حد تک کہا ہے کہ وہ پارٹی کے پلیٹ فارم کے مطابق، ترکیہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے ترکیہ کے لیے ایک غیر مداخلت پسندانہ کردار ادا کرنے کو ترجیح دیں گے۔ کمال اوغلو ترکیہ کو ایک مضبوط پارلیمانی نظام میں واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکیہ میں 1946 میں کثیر الجماعتی انتخابات کے آغاز کے بعد سے پارلیمانی نظام موجود ہے۔ 2002 سے اس پر واحد جماعتی حکومتیں چل رہی ہیں کیونکہ طیب اردوان کی قیادت میں اے کے پارٹی تمام انتخابات میں کامیاب ہوئی ہے۔ اردوان 2002 سے ملک کی صدارت کر رہے ہیں۔ اَلبتہ ایک اہم آئینی ترمیم کے بعد اردوان کو 2018 میں ترکی کا پہلا ایگزیکٹو صدر نامزد کیا گیا تھا۔ صدارتی اِنتخابات میں تیسرے امیدوار سنان اوگن نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (NHP) سابق قانون ساز تھے جو اردوان کی اے کے پارٹی کی اتحادی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے مابین روایتی گہرے تعلقات ہیں جو کہ سیاسی پارٹیوں کی وابستگیوں سے بالا تر ہیں اِس لیے ترکیہ میں کسی بھی پارٹی کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں پاکستان اور ترکیہ کے باہمی تعلقات متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں برادر قوموں کے مابین باہمی روابط اور تعلقات کی تاریخ ایک صدی پر محیط ہے جو برِصغیر کے مسلمانوں کی خلافتِ عثمانیہ کی بحالی کی تحریک سے شروع ہوتی ہے۔