سحر گل شگفتہ برنگ صبا نہ پوچھ صورت گر خیال مئے دلکشا نہ پوچھ بیٹھے ہیں سر بہ زانو دل بے صدا لیے احساس نارسائی اہل وفا نہ پوچھ سیاسی صورت حال تو اس قدر کشیدہ و ناتراشیدہ قسم کی ہو گئی ہے کہ خوف آتا ہے۔ میں نے سوچا کہ آپ کا دل بہلانے کے لیے کچھ ادبی اور تخلیقی فضا پیدا کر کے بات کروں۔ بعد از شکست آئینہ بکھرے پڑے ہیں خواب۔ اک پیکر جمال تھی چشم انا نہ پوچھ۔ ایک شعر اور ذرا غور سے دیکھئے۔ بیداری و سحر بھی ہے خوابیدگی و شام۔ ہم سے حیات و موت کا یہ سلسلہ نہ پوچھ۔ جب تک زندگی ہے یہ جھنجھٹ تو ساتھ ساتھ ہی چلیں گے۔ مرزا نوشہ نے کہا تھا: قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں اصل میں ابھی ابھی میں عمران خان کا جواب آں غزل سن رہا تھا۔ اخلاقیات میں عمرانی اور معاشرتی پہلوئوں پر میرے تحفظات اپنی جگہ مگر عصر حاضر کے اعتبار سے خان صاحب نے اگرچہ شدت سے جوابات دیئے ہیں تاہم ایک بات خان صاحب کو نہیں کہنا چاہیے تھی کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہماری فوج کو دو غلہ سمجھتے آئے ہیں ۔ ہاںیہ معاملہ سمجھ میں آتا ہے مجرموں کو کہ جن پر منی لانڈرنگ اور دوسرے کیسز تھے لاکر حکومت میں بٹھا دیا۔ ظاہر ہے اس میں الیکٹی بلز اور راجہ ریاض جیسے لوٹوں نے ہمنوائی کی۔ ایک پراپیگنڈے کے ذریعے قوم کو گمراہ کیا گیا کہ وہ مہنگائی کا قلع قمع کرنے آ رہے ہیں اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ یہ صرف محاورہ نہیں کہ چراغ تیل سے جلتا ہے بلکہ اسی تیل سے سارا نظام چلتا ہے۔ انہوں نے پٹرول ہی تو چھڑک دیا اور پھر مہنگائی کو آگ لگ گئی۔ ایک اور سوال مجھے بار بار ڈستا ہے کہ آپ لوگ خان صاحب پر معترض تو ہیں اور خود آپ کی قیادت بزدلی کی آخری حد پار کر بیٹھی ہے اور مسلسل جھوٹ بول رہی ہے ۔ دوسری بات اپنی حکومت میں جرات کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ اس سے جڑا ہوا یہ سوال تو دل پر دستک دیتا ہے کہ ہمارے یہ بارشہ نما رہنما اپنے اثاثے‘ کاروبار اور عید شبرات سب کچھ باہر کیوں رکھے ہوئے ہیں۔ کیا میرا پیارا ملک پاکستان صرف ان کی کمائی کی دکان ہے۔ باہر بیٹھ کر ہی سیاست کرتے ہیں۔ آپ سے تو شیخ رشید جیسا شخص ہی اچھا ہے کہ کم از کم ہتھکڑی کو زیور کہتا ہے۔ ابھی تک کسی دوست نے یہ نہیں بتایا کہ ہمارے پیسوں سے بننے والا جاتی امرا ہندوستان سے محبت کا شاخسانہ ہے کہ آپ اس کی یاد میں بیٹھے ہیں۔ یہ تک بھی سنا کہ آپ نے بھارت کے جاتی امرا کی رینوویشن تک بھی اپنے پیسے سے کرائی۔ مجھے معلوم ہے کہ باتیں بہت سخت ہیں اور موروثی سیاست کے تابعدار مجھے جلی کٹی سنائیں گے اور میری یہ تحریر ان نوجوان کے لیے بھی ہے جو یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ آپ عمران کے خلاف پوسٹ لگاتے ہیں۔ عمران خان کی بات کو غلط کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کو لوٹنے والوں کو درست سمجھتا ہوں۔ میں تو کہتا ہوں کہ کاش آئین میں ایسی ترمیم ہو جائے کہ ہمارے رہنما باہر اپنے اکائونٹ اور اثاثے نہ رکھ سکیں۔ باہر کاروبار نہ کرسکیں۔ ان کا جینا مرنا اپنے ملک کے ساتھ ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کی آل اولاد سیاست نہ کرے ضرور کرے مگر دوسروں کو غلام بنانے کے انداز ترک کریں۔ پارٹی کے اندر بھی جمہوریت ہے۔ یہی خامی عمران خان کی پارٹی میں بھی در آئی ہے کہ شاید ہمارا نظام اور مزاج ہی اس طرح کا بن گیا ہے۔ کاش مغرب کی طرز پر عوام کے اچھے لوگ مل کر سیاست کے ادارے بنائیں۔ فرد اہم نہ ہو اجتماعی سوچ پنپ سکے۔ میں پتہ نہیں اپنی ہی رو میں بہہ گیا۔ کیا کروں دل دکھتا ہے۔ اب دیکھئے کہ آخر انتخابات نہ کروانے کا کیا جواز ہے۔ مذاکرات کی ہی ضرورت نہیں تھی کہبات ہی حکومت کی درست نہیں تھی۔ اگر شکست کا اتنا ہی خوف تھا تو کوئی کارکردگی دکھاتے۔ آپ نے فوائد تو سارے اٹھا لیے۔ اعزاز احمد آذر یاد آئے: وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اس نے جھولی میں اپنی رکھ لیں ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے اصول آئے ان کے پاس تو اصول کی بات ہی نہیں۔ موجودہ صورتحال کی ذمہ دار اگر پی ٹی آئی ہے تو پی ڈی ایم بھی ہے کہ آپ مسلسل انتخابات سے دوڑ رہے ہیں۔ عدلیہ کی بات بھی نہیں مان رہے۔ چلیے اگر اب فیصلے کو متنازع بنا رہے ہیں تو پھر آپ کسی جگہ تو ٹک جائیں اور انتخابات کی تاریخ طے کریں۔ اب یہ بھی تو کوئی حل نہیں کہ مولانا فضل الرحمن سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دے دیں۔ کسی کی نیت پر شک نہیں کرسکتے۔ وہ تو یہی کہتے ہیں کہ عمران کی رہائی سے انہوں نے حالات کو خراب ہونے سے بچایا۔ یہ الگ بات کہ میں اس کے حق میں نہیں۔اب تو یہی لگتا ہے کہ گویا دو بڑے ادارے ٹکرا جائیں گے۔ انارکی پھیلے گی اور ڈر یہ ہے کہ باہر سے مداخلت نہ شروع ہو جائے۔ کسی کی نہیں چلے گی تو وہ کسی کو دعوت دینے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔ ایک وزیر خزانے نے بات کی تو ابھی تکپنچ کرتی ہے کہ ریاست کا چھوڑیں ان کا راستہ روکیں۔ مفادات کی پٹی آنکھوں پر بندھی ہے تو کچھ نظر نہیں آتا۔ کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ پی ٹی آئی اس میں ملوث ہونے سے انکاری ہے۔ ایک سوال تو یہ ہے کہ اتنی حساس جگہ اور اتنی آسانی سے سب کچھ برباد کردیا گیا۔ کیا یہ ٹریپ تھا یا سچ مچ بلاوا۔ تحقیق پر ہی پتہ چلے گا اور تو اور بلاول جیسا مقبول آدمی بھی کہہ رہا ہے کہ منصف بنو سیاستدان نہیں اور اب وہ روایتی احتجاج نہیں کریں گے۔ لگتا ہے کہ رن پڑنے والا ہے۔ اسے رکنا چاہیے۔ پہلے ہی ناقابل تلافی نقصان ہو چکا: میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت مجھ سے مگر چراغ بجھایانہیں گیا