میں ایک پر سکوں شہر تھا ۔میرے باسی مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ان میں مسلمان،ہندو ،عیسائی،سکھ، پارسی سب ہی شامل تھے یہ مختلف زبانیں بولتے تھے جن میں سندھی، اردو ، گجراتی، بلوچی، براہوی شامل تھیں۔ اختلاف و افتراق کے باوجود باہمی میل جول اور احترام موجود تھا۔ سڑکیں صاف ستھری اور کشادہ تھیں عمارتیں پر شکوہ تھیں اور لوگ آسودہ تھے اورزندگی سے مطمئن۔ساحلی شہر ہونے کے باعث آب و ہوا معتدل تھی اور موسم خوشگوار ۔شامیں دلنواز تھیں تو صبحیں تازہ اور روشن ۔ زندگی مدہم مگر رعنائیوں سے بھرپور تھی۔تجارتی اور صنعتی ترقی کے تمام امکانات موجود تھے ۔پاکستان قائم ہوا اور میں اس کا حصہ بنا تو ساڑھے چار لاکھ نفوس میری آغوش میں تھے۔نیا ملک بنتے ہی میرے حالات تیزی سے تبدیل ہونا شرع ہوگئے ۔پہلے میں نئے ملک کا دارالحکومت بنا ، میری اہمیت بڑھی اور پھر مجھ پر آبادی کا بوجھ بڑھنے لگا۔ بھارت کے مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرتے ہوئے نئے وطن کے خواب سجائے لاکھوں لوگوں نے مجھے رہائش کے لئے منتخب کیا ۔میرا دامن کشادہ تھا ،روزی روزگار کے مواقع موجود تھے۔ لہذا انتقال آبادی کا مجھے سب سے زیادہ بوجھ اٹھانا پڑا۔ آزادی کے چار سال بعد 1951 میں جب پہلی مردم شماری ہوئی تب میری آبادی دس لاکھ سے بھی بڑھ گئی۔1961 میں یہ انیس لاکھ اور 1972 میں پینتیس لاکھ سے بھی زائد ہوگئی۔ ستم ہائے زمانہ جوں جوں آبادی بڑھی حکمرانوں کی توجہ گھٹتی رہی اور میرے مسائل بڑھتے چلے گئے۔ 1972 کے بعد سے میرے حالات میں بگاڑ شروع ہوا۔ میرا سیاسی تشخص اورآزادی ء اظہار رائے کے پیمانے وفاق اور صوبائی حکومتوں سے فاصلوں کا سبب بن گئے۔پھر یہی وہ سال تھا جب اردو سندھی لسانی تنازع نے مجھے لہو لہان کردیا۔سندھ میں سندھی زبان کو سرکاری حیثیت دیئے جانے پر اردو پر اپنا اجارہ سمجھنے والے کچھ عاقبت نااندیش اور نادان دوستوں نے اس پر احتجاج شروع کر دیا جو بتدریج اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان پر تشدد فساد میں بدل گیااور یو ں میری زمین پر لسانی عصبیت کا بیج بو دیا گیا ۔ مفاد پرست سیاست دانوں نے سندھ کے رہنے والوں میں اجنبیت کی فصل کاشت کرنی شروع کردی ، بھائی چارگی اور ایثار و قربانی کی ساری مثالیں بھلا ئی جانے لگیں۔ فاصلوں کی سیاست مقبول ہوتی گئی اور میرے وجود پر زخموں کی تعداد بڑھتی گئی۔1981 میں شمار کی گئی میری آبادی باون لاکھ ، 1998 میں ترانوے لاکھ اور 2017 میں ڈیڑھ کروڑ تھی جو اب 2023 میں ایک کروڑ نوے لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ یہ گنتی درست ہے یا نہیں تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ میری ضروریات بڑھتی گئیں اور وسائل گھٹتے گئے ۔ میرے سیاسی تشخص نے مجھے ملک کی سیاست میں ہمیشہ اجنبی رکھا ۔ میں نے اپنا طرز سیاست بدل کر بھی دیکھا مگر پھر بھی میری تقدیر نہیں بدلی۔ 2018 کے انتخابات میں مقامی سیاسی رجحانات سے ہٹ کر تحریک انصاف کو کامیابی ملی۔ حالات بدلنے کی امید بندھی مگر وفاق میں حکمران ہونے کے باوجود تحریک انصاف نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔میری ترقی کے خواب ایک بار پھر نعروں اور وعدوں کی حد تک ہی رہے۔ صورتحال کا ایک اور پہلو جس کا مجھے ہمیشہ خمیازہ اٹھانا پڑتا ہے وہ یہ کہ سندھ میں گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے اور سیاسی طور پر یہاں سے اس جماعت کوکم ہی حمایت حاصل ہوتی رہی ہے جس کے باعث دارالحکومت ہونے کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کی توجہ اس شہر پر کم رہی ہے ۔ جس نوعیت کے ترقیاتی منصوبوں کی یہاں ضرورت تھی انہیں شروع کرنے اور مکمل کرنے میں ہمیشہ تاخیر کی گئی ہے۔ شہر کے پھیلائو کے ساتھ ساتھ اگر اس کی منصوبہ بندی کا عمل بھی مسلسل جاری رکھا جاتا تو میری یہ حالت نہ ہوتی جیسی اب میری بنا دی گئی ہے۔ ٹوٹی ہوئی سڑکیں ، بلند و بالا حبس زدہ عمارتیں ، ٹریفک کا ابتر نظام ، پینے کے پانی کی فراہمی کا ناقص اور ناکافی نظام، نکاسی ء آب کے نظام کی فرسودگی ، برساتی نالوں کی صفائی مفقود، کم ہوتے اور بد حال تفریحی مقامات اور بھی بہت کچھ واقعات نوحہ گری ہیں جو شامل سر گزشت ہو سکتے ہیں ۔ آبادی کے بے ہنگم پھیلائو نے میرا حسن ، میرا تشخص ، میری صبحیں ، میری شامیں ، میری رعنائی رفتہ رفتہ نگلنا شروع کردی ہے۔ملک بھر سے لوگ تلاش معاش کے لئے آتے رہے آسودہ ہوئے اور خوب ہوئے مگر مجھے آسودہ نہ کرسکے ۔برسوں سے یہاں ہیں مگر پھر بھی سلوک مجھ سے اجنبیوں جیسا۔میں نے قدر کی ہر ایک کی مگر میری ہر ایک نے بے قدری کی ۔ کیا اپنے اور کیا غیر۔ شاید اپنوں کے لگائے ہوئے زخم زیادہ ہیں یا ان کی شدت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ دیکھا جو کھا کے تیر کمیںگاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی میں اب اپنی کشادگی ء ظرف کا صلہ ڈھونڈ رہا ہوں۔ میری آبادی حکمران جو بھی شمار کریں اس کے مطابق ہی وسائل مجھے ملیں۔ بنیادی شہری ضروریات کی موجودگی اور تحفظ جان و مال کے اطمنان کو یقینی بنادیں۔بلند و بالا عمارتوں کا بوجھ اب مجھ پر نہ ڈالا جائے۔پانی ،بجلی، گیس کی کمیابی کی موجودگی میں جنگل کی طرح پھیلتی عمارتوں کے رہائشیوں کو یہ سہولتیں کس طرح انہیں مل پائینگی۔ کس طرح فرسودہ ہوتا میرا انفرا اسٹرکچر ( بنیادی ساختیاتی تشکیل ) آبادی کا مزید بوجھ اٹھا سکے گا ؟جدید شہری سہولتوں کی منصوبہ بندی کے سوا میرا مستقبل میرے حال سے زیادہ خراب نظر آرہا ہے۔میں کہ ایک شہر نا پرساں ہوں جو بنا سب کا مگر کوئی اس کانہ بن سکا ۔ جانتا ہوں کہ اس نوحہ گری کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا ۔ حکمران بے حس اور لا پرواہ ہو چکے ہیں۔ مال و دولت کی لا متناہی ہوس نے اقدار زیست اور رموز حکمرانی کے سانچوں کو بدل دیا ہے سیم و زر سے محبت نے انسانی دکھوں کو محسوس کرنے کی سرشت ہی ختم کردی ہے ۔اب میری آبادی محض ووٹ ہے ،گنتی کے اعداد و شمار ہیں ۔ اگر مجھے انسانوں پر مشتمل ایک بڑا شہر سمجھ لیا جائے تو مجھ پر توجہ بھی زیادہ دی جانی چاہیئے ۔میں بھی پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح ہوں۔ اگر سمجھو تو !!