قافلہ انقلاب امریکہ کو آنکھیں دکھانے اور ایبسیلوٹلی ناٹ کے نعرے لگانے کے بعد رجوع کرنے کے نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ موسم بدل چکا ہے۔یہاں بیانیہ بدلنا بھی موسم کے حساب سے اپنے لباس تبدیل کرنے کا دوسرا نام ہے۔ سردیوں میں گرم ٹوپی، جیکٹ، سویٹر ،گرم چادروں کی ضرورت ہوتی ہے ۔موسم بدلتا ہے تو یہی کپڑے بدن کو چبھنے لگتے ہیں۔ جرسیاں ،شالیں ،گرم کپڑے نئے موسم کی تپش میں غیر ضروری ہو جاتے ہیں۔ اس قوم کو سراب کے پیچھے بھاگنے کے لیے ہر دور میں کوئی نہ کوئی نیا نعرہ چاہیئے۔روٹی کپڑا اورمکان، قرض اتارو ملک سنوارو ،نیا پاکستان ، حقیقی آزادی ،اور اب نعرہ پھر بدلنے کو ہے مگر سراب کے پیچھے بھاگنے کا سفر وہی پرانا ہے ۔ ملک میں برپا سیاسی دنگل نے سیلاب متاثرین کے مسائل کو لائم لائٹ کے دائرے سے باہر کردیا ہے۔ صرف سندھ میں 80 لاکھ سیلاب متاثرین بے گھر ہوئے جن میں سے صرف 30لاکھ گھروں کو واپس جا سکے ہیں۔ گھروں کو واپس جانے والوں کو بھی گھر کی جگہ ملبے کا ڈھیر ہی ملا۔ تکلیف کے اس سخت مرحلے میں حکومتی سطح پر کوئی والی وارث نظر نہیں آتا۔ چودہ سال سے سندھ کے سیاہ و سفید کی مالک ایک ہی سیاسی جماعت ہے۔سندھ حکومت جوابدہ ہے کہ وہ اپنے صوبے کے 80لاکھ متاثرین کو اب تک چھت بنا کے کیوں نہیں دے سکی۔ وزیراعظم شہباز شریف براہ مہربانی بھائی جان کے حصار سے باہر نکلیں، اس ملک کے وزیراعظم آپ ہیں ۔باہر بیٹھے ہوئے بھائی جان نہیں ۔ آپ کی طرف لاکھوں بے گھر لوگ داد رسی کے لیے دیکھ رہے ہیں۔حکومت کے محاذ پر یکسوئی اور پلاننگ کا فقدان ہے۔ حکومت اب تک متاثرین کی مکمل بحالی کا کوئی جامع اور فول پروف نظام نہیں بناسکی۔ حالات اس نہج پر ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو افہام و تفہیم کے ساتھ مکالمے اور مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ کشیدگی سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے۔سیاستدانوں کو بیانیہ مرتب کرتے وقت سوچنا چاہیے کہ ان کے بیانیے قوم کو جوڑیں گے یا تقسیم در تقسیم کرتے جائیں گے۔ ملک کی صورتحال پر چیئرمین الخدمت جناب عبد الشکور نے اپنی سوچ کو تحریر کی شکل دی ہے جسے کالم کا حصہ بنا رہی ہوں۔ "کوئی آبلہ پا وادی پْر خار میں آوے۔ حالات بالکل ایسے ہی تھے جیسے آج کل ہمارے وطن کے ہیں۔ ایک بڑی نیکی کے نام پر ایک بڑا فساد ہونے جا رہا تھا۔ افہام و تفہیم، رواداری، خاندانی رشتے سب ہوا ہو رہے تھے۔ فرق بس اتنا ہے کہ میرا وطن پاکستان آبادی کے اعتبار سے ایک بڑا ملک اور زمانے کے اعتبار سے اکیسویں صدی عیسوی میں زندہ ہے جبکہ میرا وہ شہر نسبتا ’’مختصر آبادی اور زمانے کے اعتبار سے چھٹی صدی عیسوی میں زندہ و موجود تھا۔ مکہ شہر کے لوگ ’’ بڑی نیکی‘‘ کے نام پر شہر کو خون آلود کرنے پر تْلے بیٹھے تھے۔ ہر قبیلہ اور پارٹی یہ بڑی نیکی اوراعزاز صرف اپنے ہی نام کرنا چاہتی تھی، چاہے انہیں مخالفین کا کتنا ہی خون بہانا پڑ جائے۔ کعبے کی دیواریں نئے سرے سے اْٹھائی جا چکی تھیں اور حجر اسود کی تنصیب کا مرحلہ آچکا تھا۔ہر گروہ بات چیت اور مفاہمت سے نہیں طاقت اور تلوار کے زور پر ہر صورت اپنا حق منوانا چاہتا تھا۔ مکہ کے ایک با وقار، سنجیدہ اور دْور اندیش نوجوان بیقراری سے صورت حال کا جائزہ لے رہے تھے۔ فساد کسی بھی صبح یا شام پْھوٹ سکتا تھا۔ نیکی کے نام پر اس فساد اور ممکنہ خونریزی کو کیسے روکا جائے؟ نوجوان کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی۔وہ رات بھر بیقرار رہے۔اْنہیںگمان گزرا’’ آنے والی صبح خون آشام ہو سکتی ہے’’۔ اگلی صبح قبائل کے جمع ہونے سے پہلے ہی وہ حرم جا پہنچے، حجر اسود کو نصب کرنے کی جگہ کا جائزہ لیا اور پھر سرداروں کی آمد کا انتظار کرنے لگ گئے۔ غصے، نفرت اور تعصب کی آگ سے بھرے سردار جمع ہو گئے تو اْنہوں نے مسکراتے ہوئے سبکو مخاطب کیا اور کہا : آپ میں سے ہر قبیلے کو، آج خون بہائے بغیر ، حجر اسود کی تنصیب کا موقع اور اعزاز ملنے جا رہا ہے۔ اپنی تلواریں نیاموں میں رکھ کر آپ سب آگے بڑھ آئیں۔ پھر انہوں نے کندھے سے اپنی چادر اتاری، اسے زمین پہ بچھایا، حجر اسود کو چادر کے درمیان رکھا اور سرداروں سے کہا ‘‘ آپ سب مل کر چادر کو کونوں سے اْٹھا لیں۔حجر اسود اپنی جگہ تک پہنچ گیا تو انہوں نے اپنے پاکیزہ ہاتھوں سے اسے دیوار میں نصب کر دیا۔ محسنِ انسانیت کی اس خوبصورت تدبیر نے آنے والی نسلوں اور صدیوں کو بھی ایک قابل تقلید سبق دے دیا۔ ہر مشکل گھڑی اور آفت اپنے دامن میں ایک موقع (opportunity) بھی لئے پھِرتی ہے۔ بصیرت، جرات اور بر وقت اقدام ہر آفت کو راحت میں بدل سکتا ہے۔ میرا وطن پاکستان بھی آج کل خون آشام آفتوں کی زد میں ہے۔ وطنِ عزیز کا ہر گروہ ترقی، خوشحالی اور انصاف کا اپنی اپنی پسند کا حجرِ اسود نصب کرنے کے لئے تلواریں اْٹھائے پھِر رہا ہے اور بضد ہے کہ ایسا کرنا صرف اْسی اکیلے کا حق ہے۔ کاش محسنِ انسانیت کا کوئی سچا پیروکار،کوئی سیاسی لیڈر، کوئی سیاسی جماعت بصیرت، اور جرات سے کام لے کربروقت اقدام کا سوچے۔اِن گروہوں کو گالم گلوچ، دْشنام طرازی اور نفرت کی سیاست سے واپس موڑ کر بات چیت،رواداری اور افہام و تفہیم کی طرف لے آئے۔ کسی میثاق پر اکٹھا کر لے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کو مل جْل کر دستوری چادر کے کونے تھامنے کی راہ دکھا دے۔ اپنے پیارے اور مکرم نبیﷺ کی سْجھائی ہوئی امن اور سلامتی کی راہ۔کانٹوں کی زبانیں پیاس کے مارے سْوکھی جا رہی ہیں۔ کاش کوئی باہمت آبلہ پا وادی پْر خار میں آنے کا سوچے" کاش کو ئی سمجھے۔۔ نوٹ: ویسے تو ہر جا مشوروں اور اچھی باتوں کا شور ہے بہت کچھ کہا جارہا ہے لیکن اگر مشورہ الخدمت کے چیئرمین عبدالشکور کی جانب سے ہو تو حکومت، سیاسی جماعتوں کی قیادت اور دیگر با اختیار ایوانوں پر فرض ہے کہ ان کی بات توجہ سے سنیں اور سمجھیں۔ ٭٭٭٭٭