سانحہ پشاور اور سقوط ڈھاکہ کی بات کرنے سے پہلے یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ ملک میں آئندہ سال 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کے بارے میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے لیے تمام انتظامات مکمل ہیںجبکہ دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات ایگزیکٹو سے کروانے کے نوٹی فکیشن کو معطل کر دیا جس سے بروقت الیکشن بارے گومگو کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ تمام مسائل کاحل جمہوریت میں مضمر ہے، اسی بناء پر حکومت اور الیکشن کمیشن کیلئے عام انتخابات کروانے کی صورتحال کو واضح کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ 16 دسمبر جب بھی آتا ہے تو پرانے زخم ہرے ہو جاتے ہیں ، ہم سقوط ڈھاکہ کو نہیں بھولے تھے کہ 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول کا سانحہ پیش آ گیا، اس سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کارروائیوں کا آغاز ہوا ، بہت حد تک دہشت گردی پر قابو پالیا گیا مگر افغانستان سے امریکا کے انخلا اور افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں ایک بار پھر سے شروع ہو چکی ہیں، دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سخت اقدامات کرنا ہوں گے ۔ ہم ماضی کی طرف جھانک کر دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ 16 دسمبر ،سقوط ڈھاکہ کے بعد سانحہ پشاور کی وجہ سے اس دن کا صدمہ دوہرا ہو گیا ، یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ تاریخ انسانی اسے کبھی نہیں بھول پائے گی ۔ دہشت گردوں نے جس درندگی اور بربریت کا مظاہرہ کیا اور پھول جیسے بچوں کو شہید کیا تو دوسرے دن جنازے کے موقع پر پوری دنیا بول اُٹھی کہ جنازوں پر پھول سب نے دیکھے تھے ، پھولوں کے جنازے پہلی مرتب دیکھے ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دہشت گردی کے اسباب کو ختم کیا جائے۔انہی کالموں میں ہم لکھتے آ رہے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کا سبب افغان وار ہے، افغان مسئلے پر پاکستان کی خارجہ پالیسی غیر حقیقت پسندانہ رہی ہے۔ ضیاء الحق دور میں روس امریکا کی جنگ میں پاکستان کو فریق بنایا گیا اور اس جنگ میں جہاد کے نام پر مدراس کے طلباء کو قربان کیا گیا، اس جنگ کا شکار سب سے زیادہ وسیب کے طلباء ہوئے کہ وسیب میں غربت زیادہ ہے ، تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے، اس بناء پر وسیب کے غریب لوگ اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیج دیتے ۔ ہم بار بار لکھتے آ رہے ہیں کہ غربت ،جہالت ،بے روزگاری اور نا انصافی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ خوشحال ہو سکیں اور اپنے بچوں کو بہتر مستقبل کے لیے اعلیٰ تعلیم دلوا سکیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کی ثقافتی اقدار کا احترام کیا جائے ، ان کی زبانوں کو ترقی دی جائے ، کسی سے ناانصافی نہ ہواور محرومی وپسماندگی کا خاتمہ ہو۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عدم مساوات اور نا انصافی کا خاتمہ ہونا از حد ضروری ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے سلسلے میں حمود الرحمن کمیشن قائم ہوا مگر اس کی رپورٹ آج تک قوم کے سامنے نہیں آ سکی۔ آئندہ کے حادثات سے بچنے کے لیے ان مسائل پر غور و فکر انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ نا انصافی کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ۔ کیا موجودہ حکمران مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب پر غور اور نا انصافی کے خاتمے کیلئے اقدامات کریں گے ؟ یہ ٹھیک ہے کہ علیحدگی کے ہزاروں اسباب کی لب کشائی کے باوجود ابھی ہزاروں عوامل ایسے ہیں جن پر مصلحتوں کی گرد جمی ہوئی ہے اس خوف سے اس پر بات نہیں کی جا رہی کہ لوگ باخبر نہ ہوجائیں۔ کتنی افسوسناک صورتحال ہے سانحہ مشرقی پاکستان کو نصف صدی بیت گئی مگر غلطی آج بھی تسلیم نہیں کی جا رہی ۔ حالانکہ جو قومیں ماضی کی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتیں ان سے مستقبل کی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔ حقیقت یہی ہے کہ ماضی سے آپ جتنا واقف ہوں گے مستقبل کی اتنی بہتر منصوبہ بندی کی جا سکے گی ۔ قومی حادثے آن واحد میں نہیں ہوتے بلکہ شاعر نے درست کہا ہے کہ ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘۔ جس طرح قیام پاکستان کی بنیاد 1906ء میں اس وقت رکھ دی گئی جب بنگال میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اسی طرح مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد بھی 1947ء میں اس وقت رکھ دی گئی جب اکثریت کے جمہوری نظریے کو نظر انداز کر کے پاکستان کا دار الحکومت کراچی اور اُردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ۔ ، بنگالی نوجوانوں نے مسلسل احتجاج کرنا شروع کر دیا اور مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ، جواب میںان کا مطالبہ نہ مانا گیا، اس احتجاج کے دوران بنگالی طلبہ شہید ہوئے ، 21فروری کو پوری دنیا میں ماں بولی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، ۔پاکستان میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ کیوں ہے؟ کیا پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کمتر ہیں یا ان کے بولنے و الوں میں کوئی کمی ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں۔ یہ دھرتی کی زبانیں ہیں اور ان کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہیں، ان کے توانا اور مضبوط ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حملہ آور ان زبانوں کو مٹانے کے در پے رہے، اس کے باوجود یہ زندہر ہیں تو ان کی مضبوطی اور توانائی ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ پاکستان کی تمام زبانوں میں تعلیم کا حق دیں کہ یہ اس دھرتی کی اصل وارث ہیں۔ دیس کی زبا نوں کو ترقی دیں دیں۔ پاکستان کی تمام زبانیں قومی زبانیں ہیں، ان سب کو ترقی دے کر ملک میں یکجہتی کو فرو غ دیا جا سکتا ہے۔