آزادکشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو توہین عدالت کی پاداشت میں ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے نااہل کردیا۔ خطے کی تاریخ میںیہ ایک غیرمعمولی عدالتی فیصلہ ہے۔ تنویر الیاس نے حالیہ دنوں میںمتعدد مرتبہ عدلیہ بارے تضحیک آمیزتبصرے کیے۔ الزام لگایا کہ عدلیہ حکومت کے روزمرہ کے معاملات میں روڑے اٹکاتی ہے۔ اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ چند ہفتوں میں عدالتوں کو "ٹھیک" کریں گے بلکہ وہ ججوں کا ’’دھواں‘‘ نکالیں گے۔ بے جا خود اعتمادی کے شکار تنویر الیاس بھول گئے کہ معزز جج حضرات پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی کے ملازم نہیں کہ جب چاہا محفل سے اٹھا دیا۔ دل سے اتار دیا۔چنانچہ عدالت نے انہیں سیاست کے کھیل سے مکھن کے بال کی طرح نکال باہر کیا۔ ایسا سلوک ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ اگرچہ عدالت کے اس طرز عمل کی ان کے مخالف سیاسی حلقوں نے بھی ستائش نہیں کی لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ ہوگیا۔ سیاست میںتنویر الیاس کے سبک رفتار عروج کا سبب ان کے خاندان کی بے پناہ دولت، پاکستانی اشرافیہ بالخصوص سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ دوستانہ اور کاروباری مراسم بتایاجاتا ہے۔ ان کے خاندان کی معاشی خوشحالی کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوتاہے۔ تنویر الیاس کے والد سردر الیاس خان نے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا۔ محنت اورکاروباری دانش کی بدولت سعودی عرب میں ان کے لیے کامیابی کے در چوپٹ کھلتے گئے۔ دولت ہن کی طرح چاروں طرف سے برسی۔ نوجوان تنویر الیاس نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں بنگوئیں میں حاصل کی۔ چند برس تک ارجہ کے ایک مدرسے میں بھی زیر تعلیم رہے۔ لیکن جلد مدرسہ چھوڑ کر اسلام آباد چلے آئے۔ تنویر الیاس کے چچا سردار صغیر خان زمانہ طالب علمی میں پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ تھے۔ بعدازاں سردار خالد ابراہیم خان کی جموں وکشمیر پیپلزپارٹی سے منسلک ہوگئے۔ نوئے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو سے علیحدہ ہوکر سردار خالد ابراہیم نے اس نام سے ایک الگ جماعت بنائی تھی۔ مدتوں وہ اس جماعت کے ہم رکاب رہے۔ خاندان آسودہ حال اور وسائل کی فراوانی تھی۔ قیبلے کے بڑوں نے باہمی مشاورت سے سردار صغیر خان کو مسلم کانفرنس کے پرچم تلے الیکشن میں اتارا۔ پونچھ کے حلقہ نمبر پانچ میں الیکشن مہم کے دوران انہوں نے کروڑوں روپے خرچ کیے۔ شنید ہے کہ ووٹروں میں نقد رقم بھی تقسیم کی گئی۔ اسمبلی کی نشست وہ جیت گئے۔ میرپور اور کوٹلی کے برعکس جہاں الیکشن مہم میں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، پونچھ میں الیکشن چند لاکھوں روپے میں لڑا جاتاتھا لیکن سردار صغیر نے ووٹروں کو روپے پیسہ میں تولنے کا سلسلہ اس علاقے میں پہلی بار متعارف کرایا۔ سردار صغیر جولائی 2021 کے الیکشن سے قبل ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے لیکن وہ ایک شریف اور ہمدرد شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔سردر صغیر خان کا اپنا کوئی خاص کاروبار نہ تھا۔ اس کے برعکس نوجوان تنویر الیاس اسلام آباد کی آئی کونک بلڈنگ سینٹورس کے صدر بلکہ عالی نال تھے۔ دولت کی دیوی مہربان ہوئی تو عزت اور شہرت کا دیوانہ وار تعاقب شروع کردیا۔ سردار صغیر خان کی سیاسی کامیابی سے ان کا یہ خیال پختہ ہواکہ سیاست پیسہ کا کھیل ہے اور پیسہ ان کے ہاتھوں کی میل ہے۔ انہوں نے یہ ٹھان لی کہ دولت کے بل بوتے پر وہ سیاست میں نام ہی نہیں منصب بھی حاصل کریں گے۔ اسلام آباد میں سینٹورس مال حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔پرویز مشرف کے دور میں تنویر الیاس نے خیبر پختوں خوا سے سینٹ کا رکن منتخب ہونے کی کوشش کی۔ قاف لیگ سے بات پکی ہو گئی تھی لیکن مقامی ڈومیسائل نہ ہونے کی بنا پر کاغذات نامزگی مسترد کردیئے گئے لیکن ہمت نہ ہاری۔ پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو موصوف نے پی پی کی لیڈرشپ کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیے اور ایک بار پھر کوشش کی کہ سینٹ کا ٹکٹ حاصل کیا جائے۔ لیکن آصف علی زارداری آڑے آئے اور یہ بیل منڈھا نہ چڑھی۔ جلد ہی تنویرالیاس کو احساس ہوا کہ سیاست میں نمودار ہونے کے لیے انہیں ملک کے ’’مقتدر حلقوں‘‘ کی پشت پنائی درکار ہے۔ وہ ہی سیاسی جماعتوں میں ان کے داخلے کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ 2018کے جنرل الیکشن کے لیے بننے والے نگران سیٹ اپ میں انہیں پنجاب میں صوبائی وزیر زراعت بنایاگیا۔ تنویرالیاس نے یہ خبر ٹی وی پر سنی تو آرزدہ لہجے میں کہا کہ وفاقی وزیر کا وعدہ تھا۔ نگران وزیرکے طور پر انہوں نے لاہور میں میڈیا اور طاقت ور حلقوں میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے سرکاری اور ذاتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ پنجاب سے کشمیر کا سفر تنویر الیاس کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ 2020 میں مقتدر حلقے اور پی ٹی آئی دونوں ایک صفحے پر تھے۔ وقت کے تیور بتارہے تھے کہ اگلے دس برس تک عمران خاں بلاشرکت غیرے پاکستان پر راج کریں گے۔ حکومت مخالف سیاست دان اور جماعتیں شکست خوردہ اور منتشر تھیں۔ ان کے سرکردہ لیڈر کرپشن کے مقدمات میں پیشیاں بھگت رہے تھے۔ آزادکشمیر کے الیکشن جولائی 2021میں ہونے تھے۔ تنویرالیاس نے میڈیا کے ذریعے آزادکشمیر کی سیاست پر تبصرہ کرنا شروع کردیئے۔ ان کے حامی صحافیوں اور سیاسی کارکنان نے سوشل میڈیا پر مطالبہ شروع کردیا کہ وہ کشمیر کی سیاست میں حصہ لیں تاکہ ’’نیا کشمیر‘ بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کی خیرہ کن تصویر کشی کی گئی۔ ان کا امیج ایک مخلص اور ان تھک شخص کے طور پر ابھارہ گیا۔ بیرسٹر سلطان محمود2021 سے خطے میں پی ٹی آئی کے صدر تھے۔ وہ ایک معمر روایتی سیاستدان ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے انہیں وزارت عظمی پر فائز کیا لیکن وہ زیادہ دیر پی پی پی کے ساتھ وفا نہ کرسکے۔ مقتدر حلقوں کی شہ پر پی پی پی سے راہیں جدا کیں۔ پیپلزمسلم لیگ کے عنوان سے ایک جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ آزادکشمیر میں سیاست میں کامیابی کے لیے وفاقی جماعتوں کی بیساکھیاں درکار ہوتی ہیں۔ اس پس منظر میںبیرسٹر سلطان نے مسلم لیگ نون کی لیڈرشپ کے ساتھ پینگیں بڑھائیں لیکن مسلم کانفرنس کی موجودگی وہ کسی اور کی حمایت پر تیار نہ تھے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں چودھری شجاعت حسین نے پشت پنائی کا وعدہ کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی پیٹھ ٹھونکی۔ طے پایا کہ 2006 کے الیکشن میں وہ قاف لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے اشتراک سے آزادکشمیر کے وزیراعظم بن جائیں گے لیکن سردار عبدالقیوم خان مرحوم نے کچھ مشترکہ دوستوں کی مدد سے جنرل پرویز مشرف کو شیشہ میں اتار لیا۔ (جاری ہے)