جنگلوں کے ساتھ جنگلی حیات بھی ختم ہوتی جا رہی ہے، جنگلی حیات کا اہم حصہ پرندے ہیں، پرندوں سے پیار انسانی فطرت ہے مگر جہاں پیار کرنے والے ہیں وہاں پرندوں کے قاتل بھی موجود ہیں۔ ویسے تو انسان کی طرح ہر پرندہ مسافر ہے مگر کچھ پرندے ایسے بھی ہیں جو ہزاروں کلومیٹر اور کئی ملکوں کا سفر طے کر کے دوسری جگہ پہنچتے ہیں۔ مسافر پرندوں کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے مسافر پرندوں کا دن سال میں دو مرتبہ 14مئی اور 8 اکتوبر کو منایا جاتا ہے ، یہ اس بنا پر ہے کہ سخت گرمیوں سے قبل یعنی مئی میں پرندے گرم علاقے سے اور سخت سردیوں کی آمد سے پہلے اکتوبر میں سرد علاقوں سے معتدل موسموں کے حامل علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے علاوہ وسیب کے صحرائے چولستان اور دریائی علاقوں میں مسافر پرندے کثرت سے آتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال پندرہ لاکھ سے زائد پرندے وسیب میں آئے مگر محکمہ وائلڈ لائف کی نااہلی اور حکومتوںکی ملی بھگت سے مسافر پرندوں سے جو سلوک ہواہے وہ بیان سے باہر ہے۔ عرصہ دراز سے مسافر پرندوں کی نسل کی معدومی کی طرف حکمرانوں کی توجہ دلاتا آ رہا ہوں مگر جنگلی حیات کو مارنے کا کام تو ہوتا آ رہا ہے مگر اسے بچانے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔ چولستان پرندوں اور قیمتی جانوروں کے لئے مقتل گاہ بنا ہوا ہے، ہماری صرف اتنی درخواست ہے کہ چولستان کو پرندوں کے شکاریوں سے بھی بچایا جائے اور لینڈ مافیا جو کہ مسلسل زمینوں کا شکار کر رہی ہے ان سے چولستان کو محفوظ بنایا جائے کہ وہ نہ تو چولستان کی تہذیب و ثقافت سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کو چولستان کے تقدس کا کچھ خیال ہے ۔ ہمارے عظیم شاعر خواجہ فرید نے اپنی شاعری میں چولستان کی تعریف مقدس سر زمین کے طوپر کی ہے۔ چولستان کے کانٹے دار درختوں کو شمشاد اور صنوبر کہا ہے مگر میری مقدس سر زمین چولستان کو ظالم شکاریوں نے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے ۔وسیب کا وسیع صحرا چولستان اپنے قدرتی حسن کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے ۔ عربی شیوخ تلور اور دوسرے پرندوں کا شکار کرنے یہاں آتے ہیں ۔ تلور کے شکار کیلئے عرب حکمران بہت ہی قیمتی اور مہنگے باز ساتھ لاتے ہیں ، ان بازوں کی قیمت ہزاروں اور بعض اوقات لاکھوں ڈالر تک ہوتی ہے، باز، عقاب اور شکرا وغیرہ ایک خاندان یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں مگر باز ان سب سے اہم ہے اور ان کا اپنا الگ سسٹم ہے ، بازوں کا بادشاہ بھی ہوتا ہے ، اسے شہباز کہتے ہیں۔ چولستان میں بہت سے نایاب پرندوں کی نسل ختم ہونے کے قریب ہے اور تلور بھی کمیاب ہوتا جا رہا ہے، اگر یہی صورت رہی تو ان کا تذکرہ صرف اور صرف کتابوں میں ملے گا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ چولستان ، تھل اور دوسرے علاقوں میں سائبریا اور دوسرے ٹھنڈے علاقوں سے مسافر پرندے بہت آتے ہیں ۔ تلور اور دوسرے پرندے سائبریا سے آتے ہیں ، سائبریا کو کالے پانی کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ انگریزی دور میں ہندوستان کے مجاہدین آزادی کو سزا کے طور پر ’’ کالا پانی ‘‘ بھیجا جاتاتھا ، ہمارے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مجاہدین کی خاک سائبریا کے گلیشئیرز کا حصہ بنی ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں سے آنے والے مہمان پرندوں میں بھی اپنائیت محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ان سے ہمارا کوئی خونی رشتہ ہے۔ سائبریا سے تھوڑا آگے جائیں تو دنیا کے معروف خطہ قطب شمالی آتا ہے جہاں چھ مہینے دن اور چھ ماہ رات ہوتی ہے ، یوں سائبریا اور قطب شمالی سے آنے والے تمام پرندوں کی اہمیت مسلمہ ہے مگر تلور اور بازخاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ تلور کا گوشت عرب شیوخ کی مرغوب غذا ہے، تلور جونہی سائبریا سے چولستان کا رخ کرتے ہیں تو متحدہ عرب امارات کے شیوخ پاکستان آ جاتے ہیں ۔ عرب شیوخ کے آمد کے ساتھ ہی سرائیکی وسیب کے چولستان میں چرند پرند کا قتل عام شروع ہو جاتا ہے، اس پر وسیب اس قدر صدمے کا شکار ہے کہ وہ رونا بھی چاہتا ہے تو رو نہیں سکتا ، ایک صدمہ چولستان میں ناجائز الاٹمنٹوں کا ہے اوردوسرا شکاریوں نے چولستان کے قدرتی حسن کو برباد کر دیا ہے ۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ سردی کے اس موسم میں وسیب میں آنے والے پرندوں تلور، باز، کونج اور مرغابی وغیرہ کو انگریزی میں Migrated Birds جبکہ اردو میں مسافر یا مہاجر پرندے اور سرائیکی میں ’’ پناہ گیر پکھی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پہلے تو مشکل ہے کہ پناہ کی غرض سے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً چولستان میں آنے و الے پرندوں سے وسیب کی روایات سے بر عکس سلوک ہو رہا ہے۔یہ مہمان پرندے معصوم ہی نہیں دلنواز بھی ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ ان مہمانوں کو وسیب میں موت نہیں حیات ملتی تھی۔ پیار، محبت اور انس ملتا تھا ، شاید انہی پرندوں کے بارے میں عظیم سرائیکی شاعر خواجہ فریدؒ نے کہا تھا:۔ پکھی پردیسی اُبھے سردے ڈٖو ڈٖینھ دے خلقائیں وسیب کے ان پرندوں کو مانوسیت اور محبت کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہی کونج سرائیکی وسیب میں داخل ہوتی ہے ، بچے ، بوڑھے ، جوان غول در غول آنے والی کونجوں کا استقبال کرتے ہیں ، سب کی نظریں آسمان پر ہوتی ہیں اور سب ملکر کونجوں کو سرائیکی میں صدا دیتے ہیں ’’ کونجا ں ڑی کونجاں ، سخی سرور دا پھیرا پاتی ونجو‘‘ یہ آواز اور یہ التجا سنتے ہی کونجوں کے غول ڈیرہ غازی خان میں مدفن حضرت سخی سرورؒ کے نام پر پھیرے لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہم آج ان مہمان پرندوں سے کیا سلوک کر رہے ہیں ؟ یہ سوچتے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے، شکاریوںنے چولستان کے بعد وسیب کے اہم ڈویژن ڈیرہ غازی خان کا بھی رخ کر لیا ہے اور وہاں بھی پرندوں کی شامت آئی ہوئی ہے، جن لوگوں کو ’’مال‘‘ مل رہا ہے وہ شکاریوں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی دھرتی ، انا اور غیرت کے بدلے کچھ نہیں چاہئے، خدارا وسیب کو ہر طرح کے شکاریوں سے بچایا جائے ۔