پاکستان کے قومی انتخابات ہمیشہ کرپشن اور نا انصافی کے خلاف احتساب کے ڈنکے پر لڑے گئے ہیں۔ آمروں نے نیب جیسے ادارے قائم کر کے ان کے ایجنڈے پر عمل نہ کرنے والوں کو انتخابی نااھلی کا شکار کیا بلکہ ان کو جیلوں اور مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر آج تک سرکاری معاملات میں کرپشن نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا ۔سرکار اور اس کے کرپٹ اہل کار روٹین کے مطابق مسائل زدہ عوام کو پریشان اور ان کا استحصال کرنے میں مصروف کار ہیں۔ آئے دن مک مکا کی سیاہ داستانوں کو اخبارات اور سوشل میڈیا سابق اور موجودہ حکمرانوں کے مالیاتی سکینڈل بے نقاب کرنے میں مصروف ہیں ۔جو سیاست دان حکومت میں آتے ہیں ان کی کرپشن کے مقدمات ختم ہو جاتے ہیں اور اپوزیشن کے سیاست دانوں کا احتساب نیب ، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن شروع کر دیتے ہیں ۔ستم ظریفی یہ کہ پنجاب اینٹی کرپشن کے سربراہ پچھلی حکومت میں خود کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے مگر حکومت بدلنے پر وہ صاحب کردار انسان بن کر کرپٹ لوگوں کی پکڑ دھکڑ کا قومی فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔کب کوئی فرشتہ شیطان بن جائے اور کب شیطان فرشتہ! پاکستان کی ریاست جادو نگری ہے۔ لوگ جیل سے اقتدار اور پھر اقتدار کے ایوانوں سے جیل چلے جاتے ہیں ۔آصف علی زرداری اس کی کلاسک مثال ہیں۔ پاکستان میں احتساب کے عمل کی ناکامی کے باوجود ہم ہر وقت مخالف سیاسی عناصر کے احتساب کے لیے تشدد اور جیل کا مطالبہ کر تے رہتے ہیں ۔آج وہ لوگ جو کل تک سکوٹر پر سوار تھے حکمران جماعت کے سربراہان کی رشتہ داری سے کھرب پتی ہو گئے ہیں۔ ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر نے کے بعد ہر وقت عمران خان کے خلاف چارج شیٹ میں مصر وف رہتے ہیں۔ یہی کام گزشتہ حکومت میں شہزاد اکبر میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف کرتے تھے۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس ملکی مسائل حل کرنے کی کوئی اہلیت نہیں ہوتی ہے تو وہ کرپشن کے خلاف آواز بلند کر کے سمجھتے ہیں کہ ملک وقوم کی عظیم خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ نواز شریف نے احتساب کمیشن بنا کر سیف الرحمن کے ذریعے بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو اذیتوں اور تکلیفوں کا شکار کیا۔ آصف علی زرداری کی زبان کاٹی گئی مگر آج وہ ان لوگوں کے ساتھ شیر وشکر ہیں۔ یہ عمران خان کی وجہ سے ہے ۔ ہمارے حکمران کرپشن کے خلاف جس کلچر سے انسپا ئریشن حاصل کرتے ہیں اس کے سوتے فیوڈل ازم سے پھوٹتے ہیں۔ یہ کلچر جمہوریت کی بجائے شخصی آمریت کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کلچر میں اشرافیہ کے لیے کرپشن استحقاق بن جاتا ہے جبکہ غریب عوام کو غلامی اور معاشی جبر کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔ ملک کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے قرضوں اور خساروں کے بوجھ تلے دفن کر دیا جاتا ہے۔ سامراجی تجارت اور استعماری قرضوں نے قوم کے وسائل کو لوٹا ہے۔ اس لوٹ مار کو دنیا کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔ 30 سال اس ملک پر حکومت کرنے کے بعد وزیر خزانہ کو سمجھ آئی ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدہ نہ کر نے کے پیچھے جیو پالیٹکس ہے جب یہ لوگ غیر ملکی قرضوں کو ذرائع نقل و حمل کے غیر ضروری پراجیکٹس میں استعمال کر رہے تھے تو اس وقت ادراک کرنا چاہیے تھا کہ ان مہنگے قرضوں کی کاسٹ ان کی آؤٹ پٹ سے بہت زیادہ ہے اور مستقبل میں ہما ری معیشت میں اتنی گروتھ نہیں ہوگی کہ ان پراجیکٹس کی آمدنی سے قرض اتارے جا سکیں۔ سی پیک کے مہنگے بجلی کے پراجیکٹس کے باوجود نہ تو سستی توانائی مل رہی ہے اور نہ ہی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ ہمارے عوام کی بھاری اکثریت کو معاشی اور سماجی ناہمواریوں نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کے عفریت کا شکار دس کروڑ عوام کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں کیونکہ حکمرانوں نے تو دستانے پہن رکھے ہیں۔ انہوں نے اپنی نسلوں کے علاوہ کبھی سوچا ہی نہیں کہ قانون اور انصاف کی فرسودگی نے سماجی، معاشی اور سیاسی ناانصافی کے ریلوں کو کس قدر بلند کردیا ہے۔ راتوں رات تحریک انصاف جیسی چاروں صوبوں میں وجود رکھنے والی جماعت کی شکست وریخت کر دی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کو تحریک انصاف کے تیس ووٹوں سے محروم کر کے کراچی کے عوام کو ان کے جائز مینڈیٹ سے محروم کر دیا۔ چلیں پیپلز پارٹی نے 1971 کی تاریخ دہرا دی جب بھٹو 86 سیٹیں لے کر 166 سیٹوں والے شیخ مجیب الرحمٰن کا حق چھین کر کٹے پھٹے پاکستان کا صدر بن گئے۔ 1977 میں بلامقابلہ منتخب ہونے کے شوق میں اپنا اور جمہوریت کا بوریا بستر گول کر گئے۔ لگتا ہے پیپلز پارٹی نے تاریخ سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا ۔ آج کے ان حکمرانوں کو جو نادیدہ ہاتھ کے اشارے پر چلتے ہیں انہیں کون سمجھائے کہ علم اور ہنر کے اس دور میں عوامی مسائل تجربے اور صلاحیتوں کے متقاضی ہوتے ہیں۔ طاقت کے دباؤ سے ہم جمہوریت اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کریں گے تو اس کے نتائج عوام کے لیے تباہ کن ہونگے مگر حکمران بھی مکافات عمل کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ قدرت کا انصاف عہد ے اور مرتبے نہیں دیکھتا ۔ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے والے کرداروں کا کیا انجام ہوا ایسے ظالموں کی نسلوں کو بھی حساب دینا پڑا۔ آج سائنس ،کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دنیا مسلح جنگوں سے نکل کر مصنوعی ذہانت کے دور میں داخل ہو گئی ہے جبکہ ہمیں خواجہ آصف اور رانا تنویر کے پچھلی صدی کے بھاشن اور گالیاں سننی پڑتی ہیں ۔خود ہی زیادہ تنخواہوں پر ججز اور ٹیکنوکریٹس کو رکھتے ہیں پھر ان کی تنخواہوں کا واویلا مچاتے ہیں۔جب ایک ٹیکنوکریٹ ورلڈ بینک یا کسی عالمی ادارے سے آئے گا ،اربوں ڈالرز کی گرانٹ لائے گا تو وہ تنخواہ بھی مارکیٹ کے مطابق لے گا۔ ابھی آپ نے ایک تیسرے درجے کا شخص ایم پی ٹو سکیل میں بھرتی کیا ہے اس کی قومی خدمت کا تو کسی کو نہیں معلوم، ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا ۔