استحکام پاکستان پارٹی اپنے قیام کے ساتھ ہی عدم استحکام کا شکار ہوگئی۔کہنے کو تو یہ سارے بڑے بڑے الیکٹیبلز کا ایک نا قابل شکست گروپ ہے جو جس جماعت میں ہو جیت جاتا ہے لیکن اس بار کچھ مختلف ہو رہا ہے،اس بارالیکٹیبلز کا اعتماد متزلزل ہونے کی کئی وجوہات ہیں، کئی ایسے سوالات ہیں جن کے جواب اب تک خود استحکام پارٹی کے رہنمائوں کے پاس موجود نہیں۔ہم پوچھ پوچھ کے تھک گئے ہیں مگر جواب ہو تو ملے۔ ابھی تک خود استحکام پاکستان پارٹی کے رہنمائوں کو معلوم نہیں کہ ان کا سیاسی حریف کون ہے،پی ڈی ایم یا تحریک انصاف ؟گویا پارٹی کو اپنے حریف کے چنائو کا مسئلہ درپیش ہے۔نوزائیدہ پارٹی کے سو سے زائد ارکان میں سے صرف تین افراد ایسے ہیں جو تحریک انصاف پر تنقید کر رہے ہیں ، یہ تین افراد فیاض الحسن چوہان، فردوس عاشق اعوان اور عون چودھری ہیں۔تحریک انصاف پر تنقید کرنے کے لیے ان تینوں کے پاس ذاتی وجوہات ہیں ۔باقی لوگ اس لیے خاموش ہیں کہ ان کی نظر تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر ہے۔ سبھی کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف کو ہدف تنقید بنا کر وہ بہت بڑا ووٹ بینک کھو دیں گے۔انہیں خوش فہمی ہے کہ اگر وہ خود کو تحریک انصاف کا ہی ایک ٹوٹا ہوا تارا دکھائیں گے تو تحریک انصاف کے لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔ استحکام پارٹی کے زیادہ تر لوگ پی ڈی ایم پر تنقید کر کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے میں دلچسپی رکھتے ہیں مگر انہیں ایساکرنے کی اجازت نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ پارٹی بنانے والوں نے اب تک فیصلہ نہیں کیا کہ اس ’’طوفان‘‘ کا رخ کدھر موڑنا ہے۔وہ ان آپشنز پہ غور کر رہے ہیں کہ ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنی ہے یا اس پارٹی کو ہی ن میں ضم کر دینا ہے۔ ن لیگ کے لیے دونوں میں سے ایک بھی راستہ آسان نہیں ۔ استحکام پارٹی میں کئی ایسے لوگ ہیں جو یہاں آ تو گئے ہیں مگر وہ ن لیگ کے ساتھ مل کے سیاست نہیں کر سکتے ۔ سعید اکبر نوانی ،قیصر مگسی، علیم خان،عون چودھری،فردوس عاشق اعوان اور نعمان لنگڑیال جیسے لوگوں کے لیے تو شاید اتنا مسئلہ نہ ہو مگر عمران اسمعیل،مراد راس، علی زیدی اور فواد چودھری جیسے لوگ کیسے ن لیگ کے ساتھ مل کے سیاست کر سکتے ہیں۔ان کی سیاست تو شاید تباہ ہو جائے گی،پہلے بھی ہو گئی ہے تب مشکلات مزید بڑھ جائیںگی۔ اس وقت استحکام پارٹی کے دو رہنما ایسے ہیں جو پی ڈی ایم کی حکومت کا بھی حصہ ہیں۔عون چودھری اور نعمال لنگڑیال وزیر اعظم کے معاون خصوصی بھی ہیں ، استحکام پارٹی کے عہدیدار اور ترجمان بھی ۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی پی ڈی ایم کی اتحادی جماعت بھی نہیں ۔جب پوچھا جائے کہ عون چودھری حکومتی عہدہ کیوں نہیں چھوڑتے تو جواب ملتا ہے اس کا فیصلہ آئیندہ چند روز میں ہو جائے گا۔ گویا اگر استحکام پارٹی ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا ضم ہونے کا فیصلہ کرتی ہے تو عہدے چھوڑنے کی ضرورت نہیں اور اگر پی ڈی ایم کی مخالفت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرتی ہے تو عہدے چھوڑ دیے جائیں گے۔ اس بات کا امکان کافی کم دکھائی دیتا ہے کہ استحکام پارٹی پی ڈی ایم مخالف نعرہ لگائے اور حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنائے کیونکہ مستقبل میں اس پارٹی نے حکومت بنوانے کے لیے انہی جماعتوں کا حصہ بننا ہے۔لیکن چیلنج یہ ہے کہ آج اگر استحکام پارٹی یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑی ہے تو حکومت کی پالیسیوں سے ناراض عوام ان کے ساتھ بھی اسی ناراضی کا اظہار کر سکتے ہیں جو وہ ن لیگ کے لیے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جہانگیر ترین اور ان کی پارٹی کے رہنمائوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اس وقت ووٹ بینک تحریک انصاف کا ہے اور کارکن تحریک انصاف چھوڑ کے جانے والوں سے شدید ناراض ہیں۔ سترہ جولائی کو منحرف لوگوں کے ساتھ عوام نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا اب تو غصہ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔لہذا یہ الیکشن ان الیکٹیبلز کے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہو سکتاہے۔ پارٹی کا اعلان ہونے سے لیکر اب تک سو سے زائد ارکان غائب ہیں ۔ پانچ رہنمائوں کے علاوہ کوئی پارٹی کو ڈیفینڈ کرنے کے لیے آگے نہیں آرہا ۔کہیں تو کیا کہیں، کسی کو کچھ معلوم تو ہے نہیں ۔ خود جہانگیر ترین کو نہیں پتہ کہ انہیں آگے کیا کرنا ہے۔ بتانے والوں نے ابھی صرف اتنا ہی بتایا ہے کہ فی الحال پارٹی کا اعلان کر دیں اور بتا دیں کہ اگلا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔جہانگیر ترین نے بھی ابھی اتنا ہی کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ ق لیگ کے چودھری سرور نے گذشتہ دنوں مایوسی کے عالم میں سیاسی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دو ہی پارٹیوں کا ووٹ بینک ہے ،تحریک انصاف اور ن لیگ،باقی سب سپائیلر (Spoiler)ہیں۔یہ سپائیلرز خود بھی کوئی سیٹ جیت سکتا ہے، ڈر ہے کہ کہیں ان کا حال سرزمین پارٹی کے سپائیلر جیسا نہ ہو جو ایم کیوایم کو تو ڈبو گیا، خود ایک بھی سیٹ حاصل نہ کرسکا۔ ا ن حالات میں استحکام پاکستان پارٹی کے پاس ایک ہی امید بچی ہے کہ کوئی نادیدہ قوت انتخابات کے بعد گنتی کے دوران ان کے حلقے کے نتائج روک لے اور چوبیس گھنٹے بعد جب رزلٹ نکلے تو وہ جیت چکے ہوں۔بالکل اسی طرح جیسے پیپلز پارٹی کراچی کے بلدیاتی انتخابات جیتی ہے۔ اب جماعت اسلامی لاکھ شور مچائے ، پیپلز پارٹی کا مئیر بن گیا تو بن گیا۔استحکام پارٹی کو بھی یہی امیداپنے دل میں جگائے رکھنی ہو گی۔ کرنے والوں کے لیے چنداں مشکل نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ایسا کرنے میں دلچسپی بھی رکھتے ہوں ورنہ ٹشو پیپر تو زمین پہ بہت بکھرے پڑے ہیں ۔ ٭٭٭٭٭