زمانہ ِ قدیم میں ایک چینی سیاح نے قریباََ دو ہزا ر سال قبل مسیح میں ایک خیال پیش کیا اگر چین نے دنیا پر حکمرانی کا خواب ِ شرمندہ تعبیر کرنا ہے تو ’چین کو راستے بنانا ہونگے‘۔ چین کا یہ خواب کسی حد تک سِلک روڈ کی تعمیر کے ساتھ شرمندہِ تعبیر ہوا مگر یہ خواب پھر بھی اَدھورا ہی رہا۔ دراصل فارس کے شہنشاہ دارا اول نے زمانہ قدیم میں ’رائل روڈ‘کے نام سے ایک سڑک تعمیر کی جو ’سْوسا‘ شہر (موجودہ ایران) اور سَاردیز (موجودہ ترکی) کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ دارا اول کی تعمیر کی گئی سڑک کے قریباََ تین سو سال بعد چین نے سلک روڈ کی تعمیر کی جس نے چین کو قریباََ سولہ سو میل دور دارا اول کی تعمیر کردہ سڑک کے ساتھ جوڑ دیا یوں چین کا رابطہ وسطی ایشیائی ممالک سے ہوااور چین کو اپنی تجارتی اور اقتصادی مقاصد کو وسطی ِ ایشاء تک پھیلانے کا موقع مل گیا۔ لیکن چین کے سیاح کے خواب کی صحیح تعبیر موجودہ چینی صدر شی جن پنگ کے رواں دورِ حکومت میں پوری ہوتی نظر آئی ہے۔ کیونکہ صدر شی جن پنگ نے ایک اعشاریہ تین کھرب ڈالرز کی لاگت سے ’بیلٹ روڈ اِنی شی ایٹیو‘ کے ذریعے تعمیر کردہ سینکڑوں سڑکوں کی معاونت سے چین کا زمینی راستہ قریباََ باسٹھ ممالک کے ساتھ براہِ راست قائم کردیا ہے۔ اِن تعمیرات کا مقصد فاصلوں کو کم کرنا، وقت کو بچانا اور چین کی معیشت کو مزید طاقتور بنانا ہے۔یہ بات امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے لئے قابلِ ہضم نہ ہے مگر چین اپنی دھن میں پکا آگے بڑھتا جارہا ہے۔ دراصل دنیا کے سبھی ترقی یافتہ ممالک جان گئے ہیں کہ اگر دورِ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق زندگی گزارنا ہے تو وقت بچانا ہوگا۔ ابھی چین کا یہ منصوبہ ِ زیر ِ تکمیل ہے کہ اتنے میں سعودی عرب سے ایک ایسی خبر آرہی ہے جو دنیا کو حیران کردینے کے لئے کافی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان وِرجن گروپ کے بانی اور چیئرمین رِچرڈ برین سن کے تعاون سے سعودی عرب میں مقناطیسی رفتار والی ٹیکنالوجی کی مدد سے ذرائع آمدورفت کا ایک ایسا جال بچھانے جارہا ہے جس کی بدولت سے سعودی عرب دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا جہاں گھنٹوں کا فاصلہ منٹوں میں طے ہوگا۔اِس ٹیکنالوجی کو ’ہائپرلوپ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد کی ملاقات رچرڈ برین سن سے امریکہ میں ہوئی جہاں اْنہوں نے ہائپرلوپ کپسول بنانے والی جگہ کا دورہ کیا اور رچرڈ برین سن کو سعودی عرب میں کام کرنے کی دعوت دی۔رچرڈ برین سن جو خود خطرہ مول لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں اْنہیں جب سعودی ولی عہد کے گراں قدر کارناموں کے متعلق آگاہی ملی تو اْنہوں نے فوراََ حامی بھرلی۔ اب سعودی عرب میں اِس کام کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔ جب یہ منصوبہ پایہ ِ تکمیل کو پہنچے گا تو جدہ شہر سے ریاض کا فاصلہ جو دراصل دس گھنٹوں پر محیط ہے وہ سکڑ کر محض تیس منٹوں تک محدود ہوجائے گا۔ یعنی اِس کو یوں بھی ماپا جاسکتا ہے کہ لاہور سے بہاولپور تک دس منٹ اور لاہور سے کراچی تک کا فاصلہ محض تیس یا چالیس منٹوں پر محیط ہوگا۔ یہ واقعی ایک حیران کن اور چونکادینے والی ٹیکنالوجی ہے۔ اِس میں ریلوے ٹریک کی طرح ٹیوب لائن بچھائی جائے گی جس کے اندر آرام دہ کیپسول نما بوگی موجود ہوگی جو مقناطیسی ٹیکنالوجی کی معاونت سے چلے گی۔جس میں آٹھ دس افراد آرام سے بیٹھ سکیں گے۔ اس ٹیکنالوجی کی معاونت سے جہاں سعودی عرب دنیا کا وہ پہلا ملک بن جائے گا جہاں ہائپر لوپ ٹیکنالوجی کی معاونت سے سفری سہولیات اِس قدر آسان ہونگی کہ سعودہ شہری روزانہ کی بنیاد پر مدینہ سے مکہ ملازمت کرنے جایا کریں گے اور اْسی روز واپس گھر آجایا کریں گے۔ اگر واقعی ایسا ممکن ہوتا ہے تو سعودی عرب میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوجائے گا جسے باقی دنیا اپنانے پر مجبور ہوگی کیونکہ اِس طرح کی تیز رفتار سفری سہولت کے ساتھ ایسے ہزاروں دیگر فوائد جڑے ہیں جنہیں سوچ کر انسان اپنی زندگیوں میں آرام محسوس کرنے لگتا ہے۔ مثلاََ جو اِ س وقت سعودی شہری مکہ میں ملازمت کررہے ہیں اور اْن کا گھر جدہ، ریاض یا مدینہ میں ہے یقینی طور پر اْنہیں ملازمت والے شہر میں گھر، گاڑی، سکول، ہسپتال اور دیگر سہولیات سے مستفید ہونے کے لئے اچھی خاصی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ بصورتِ دیگر جب وہ ہائپر لوپ ٹیکنالوجی سے مستفید ہورہے ہونگے تو اْنہیں دیگر سہولیات سے مستفید ہونے کے لئے رقم خرچ نہیں کرنی پڑے گی۔ ایک پل کے لئے اگر سوچیں کہ یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں موجود ہو تو ہمارے بڑے شہروں میں قرب و جوار سے آئے افراد کی آبادی کا بوجھ یکدم ختم ہوجائے گا۔ مثلاً کراچی میں کام کرنے والے پشاور، لاہور، اسلام آباد، ملتان اور دیگر شہروں کے افراد کراچی کی بجائے اپنے گھروں میں ہی رہنا پسند کریں گے اور روزانہ کی بنیاد پر وہ اپنے گھروں سے کراچی کاروبار کرنے یا ملازمت کی غرض سے جایا کریں گے اور پھر اْسی دن واپس آجایا کریں گے۔ اِس سے جہاں ذرائع آمدورفت میں جدت سے پاکستانی عوام کو فائدہ پہنچے گا وہیں سرکاری ملازمین کو دی جانے والی سفری، گھریلو اور دیگر سہولیات کی فراہمی پر اْٹھنے والے اخراجات میں حکومت ِ پاکستان خاطر خواہ کمی لے آئے گی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان تو چلو دھن کے پکے اور لگن کے سچے شہزادے ہیں جنہوں نے سعودی عرب کو دنیا کا بہترین، جدید سہولیات سے آراستہ ملک بنانے کا بیڑہ اْٹھا رکھا ہے مگر ایسی سہولیات پاکستان میں کیونکر آئیں گی؟ ایسا کونسا پاکستانی لیڈر ہوگا جو اپنی ذات اور مفادات کے خول سے باہر نکل کر سوچے گا؟ وہ وقت کب آئے گا جب کوئی پاکستانی سیاسی رہنما ء اپنی ناکامی اور نامرادی کا بوجھ سابقہ حکومت پہ ڈالنے کی بجائے اپنی ناکامی کا ذمہ دار خود کو ٹھہرائے گا۔ دنیا ٹیکنالوجی میں جدت کے جس مقام پر پہنچ چکی ہے اور پاکستان کی آبادی جس اندا ز میں بڑھتی جارہی ہے تو اگر اب بھی ہم نے اپنی غلطیوں، کمی، کوتاہیوں کی تلافی نہ کی اور اپنی سَمت درست نہ کی تو یقین جانئے عنقریب ہمیں کوئی بھیک دینا گوارا نہ کرے گا اور جن مفاد پرست افراد نے پاکستان سے دولت سمیٹ کر دوسرے ملکوں میں گھر بنا رکھے ہیں اْنہیں نہ تو عزت کی زندگی نصیب ہوگی اور نہ ہی اْنہیں پاکستان اپنی پہچان دے گا۔ ابھی بھی وقت ہے ہم فیصلہ کرلیں ورنہ جس دن تاریخ نے فیصلہ کیا وہ ہمارے لئے افسوس ناک اور المناک ہوگا۔