کسی اور زمانے کا ذکر تھا ۔مجھے وہ بے طرح یاد آیا،خلافت کا بوجھ کندھوں پر پڑا تولرز اٹھے۔718ء میں وابق کے مقام پر جہاں فوج کی اجتماع گاہ تھی، سلیمان بن عبد الملک بیمار پڑا۔ زندگی کی کوئی امیدختم ہوگئی۔ اپنے وزیر رجاء بن حیوہ کو بلا یا اور پوچھا کس کو جا نشین بنائوں؟۔ رجاء نے اپنی دانش کے مطابق دو نام پیش کیے۔ عمر بن عبد العزیز اور یزید بن عبد الملک ۔سلیمان بن عبدالملک نے وصیت لکھی اور مہر بند کرکے اپنے پولیس افسرکعب بن جابر کے حوالے کر دی۔ رجاء کو خدشہ تھا کہ بنو امیہ آسانی سے عمر بن عبد العزیز کی خلافت قبول نہیں کریں گے۔ کچھ دیر کے لیے سلیمان کی موت کو چھپائے رکھا اور وابق کی جامع مسجد میں بنو امیہ کو جمع کرکے دوبارہ بیعت لے لی۔ اس کے بعد وصیت نامہ کھول کر پڑھا گیا۔ جب اعلان خلافت ہو رہا تھا تو اس وقت ’’انا اللہ‘‘ کی دو آوازیں بیک وقت سنی گئیں۔ ایک ہشام کے منہ سے جسے حکومت کھو جانے کا غم تھا، دوسرے عمر بن عبد العزیز جنہیں حکومت مل جانے کا رنج تھا۔ ہشام نے فوراًبیعت سے انکار کردیا لیکن رجاء بن حیوہ نے اسے ڈانٹ دیا اور کہا اٹھو بیعت کرو ورنہ تمہارا سر قلم کر دوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے عمر بن عبد العزیز کو پکڑ کر منبر پر کھڑا کر دیا۔ان پر لرزہ طاری تھا۔سلیمان بن عبدالملک کی وفات کا وہیں اعلان ہوااور سب جنازے کے لیے چل پڑے۔تدفین کے بعد مسجد میں آئے، منبر پر چڑھے اور لوگوںسے مخاطب ہوئے : ’’لوگو! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے لیے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داری دے دی گئی ہے۔ اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمہاری گردن میں ہے،میں اسے خود اسے اتارے دیتا ہوں، تم جسے چاہو اپنا خلیفہ کسی اور کو بنا لو ‘‘یہ سن کر سب نے بلند آواز سے کہا’’ ہم نے آپ کو اپنے لیے پسند کیا اور آپ سے راضی ہیں۔‘‘ اس کے بعد آپ نے فرمایا’’اے لوگو! جس نے خدا کی اطاعت کی،اس کی اطاعت انسان پر واجب ہے جس نے خدا کی نافرمانی کی، اس کی نافرمانی لوگوں پر ضروری نہیں۔میں اگراللہ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرنا اور اگر میں خدا کی نافرمانی کروں تو میری بات ہر گز ہر گز قبول نہ کرنا ‘‘ اس کے بعد ایک بار پھر فرمایا’’لوگو! آپ پر کوئی پابندی نہیں،مجھ سے بہتر کا انتخاب کرو‘‘لوگوں نے انکار کر دیا ۔ایک بار پھر آپ کی تائید کے لیے ہاتھ کھڑے کر دیے اورآپ کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔۔ عمرؒ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’ ’اے لوگو! اگر تم اگر میرے احترام میں کھڑے ہو گئے تو میں بھی کھڑے ہو جایا کروں گا۔ اگر تم بیٹھو گے تو میں بیٹھوں گا۔ لوگ خدا کے حضور کھڑے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ باتیں انسانوں پر فرض کیں اور کچھ مسنون ہیں۔ جنہوں نے ان کی پابندی کی وہ کامیاب ہوئے اور جس نے ان کا لحاظ نہ رکھا وہ تباہ ہوا ‘‘پھر فرمایا’’تم میں سے جو کوئی میرے پاس آئے وہ ان باتوں کا خیال رکھے مجھ تک ایسی حاجت پہنچائے جس کا مجھے علم نہ ہو۔مجھے ایسے عدل و انصاف کی طرف توجہ دلائے جو مجھ سے نہ ہو سکا ہو۔سچائی میں میرا ساتھ دے۔مسلمانوں کی امانت کا نگہبان اور محافظ ہو۔میرے پاس کسی کی غیبت نہ کرے ‘‘ مدینہ کے گورنر بنے تو ابھی تک شاہانہ وقار اور اطوار سے برقرار رتھا۔ جب مدینہ آئے تو آپ کا ذاتی سامان 30 اونٹوں پر لد کر آیا۔یہ 99ہجری کا زمانہ ہے جب خلافت آپ کو ملی۔تب طلوع اسلام کوایک سو سال ہو چکے تھے۔خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کے دور میں اخلاق ،معاشرت،معاملات عقائد میں رخنہ پڑنے لگا تھا۔اس حالت میں جب یہ بارگراں آپؒ کے کندھوں پر پڑا تو شاہزادگی کہیں کھو گئی۔وہ کہتے تھے خلافت کی موت اسلام کی موت ہے اور خلافت کی زندگی اسلام کی زندگی ہے۔خلافت کے بعد تقریر کر کے اترے تو شاہی سواریاں ترک گھوڑے اور خچرقطار مین کھڑے دیکھ کر فرمایا’’لے جائو، ان کو اور خزانے کاحصہ بنا دو،میرے لیے میراخچر کافی ہے۔‘‘پولیس کا کمانڈر نیزہ اٹھا کر آگے آگے چلنے لگا۔اسے روکا اور فرمایا’’میں بھی تمام مسلمانوں جیسا ایک مسلمان ہوں‘‘۔لوگ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ مدینہ کا سابق گورنر جس کے لباس اور خوشبوئوں کا چرچا تھا،خلیفہ بنتے ہی خچر پر بیٹھا رو رہا ہے۔آپ کے استقبال کے لیے شاہی خیمہ لگایا گیا،فرش بچھا یا گیا تھا ۔اسے اٹھوا کر خزانے میں بھجوا دیا۔ایک چٹائی پر بیٹھ گئے۔روتے جارہے تھے اور کہتے جارہے تھے’’آج دنیا میں کوئی ایسا مسلمان نہیں جس کا مجھ پر حق نہ ہو، یہ حق مجھے اس کی شکایت سے قبل ادا کرنا ہے‘‘گھر پہنچے کچھ دیر کے لیے سستانا چاہتے تھے۔ ان کے بیٹے عبدالملک پاس آئے اور عرض کی’’ابا جان!وہ مال جو ہم نے (بنو امیہ) نے عوام سے چھینا ہے،اس کی واپسی سے قبل آپ سوناچاہتے ہیں؟‘‘ کہا ’’مجھے یہ کام کرنا ہے لیکن ظہر کی نماز کے بعد‘‘۔بیٹے نے پوچھا’’ اس بات کا کیا یقین ہے کہ آپ ظہر تک زندہ رہیں گے؟‘‘بے تاب ہو کر اٹھے اورگھر سے نکل کر اعلان کیا’’جس جس کا مال چھینا گیا ہے، آکر لے جائے۔‘‘ مسجد میں جا بیٹھے اور اپنے غلام مزاحم سے کہا’’ کاغذات لائو اوربتائو میری جائیداد میںایسا کون کون سامال ہے؟‘‘مزاحم جائیداد کے کاغذات پڑھتا جاتا اور آپؒ قینچی سے سے کاٹ کاٹ کر ڈھیر لگاتے رہے۔آخر میں ایک قیمتی نگینہ بچ گیا،یہ ولید نے انہیں تحفے میں دیا تھا،حکم دیا اسے بھی بیت المال میں بھیج دو،مزاحم یہ سن کر رو پڑا،بولا’’اولاد کے لیے رہنے دیجئے،ان کے کھانے پینے کا کیا بنے گا‘‘ فرمایا’’ ان کو خدا کے حوالے کرتا ہوں‘‘اس کے بعد بنو امیہ کے وڈیروں سے مخاطب ہوئے’’لوٹا ہوا مال واپس دو،ورنہ لڑنے کے لیے تیار ہو جائو‘‘۔حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒنے عوام کو اس قدر مالا مال کردیا کہ کوئی شخص حاجت مند باقی نہ رہ گیا تھا۔دو سال پانچ ماہ پندرہ دن کی حکومت میں خلق خدا نے یوں محسوس کیا جسے زندگی اپنی رعنائیوں کے ساتھ زمین پر اتر آئی ہو۔ذکر کسی اور لمحے کا تھا کہ وہ یاد آئے اور بے انتہا یاد آئے۔