ہر روز مہنگائی بڑھ رہی ہے جبکہ حکومت کے پاس کوئی ایجنڈا بھی نہیں جس کے باعث عوام میں مایوسی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے‘مسلم لیگ ن یا پی ڈی ایم میں شامل کوئی بھی جماعت کچھ بھی کہے ‘عوام کی غالب اکثریت ان سے اکتا چکی ہے‘ لوگوں کا موقف واضح ہوچکا ہے کہ یہ ساری تیرہ کی تیرہ جماعتیں نہ صرف ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتیں بلکہ یہ ملک کے مسائل کی اصل وجہ ہیں‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کیسی کیسی باتیں نہیں کرتے رہے‘اپنی تعریف میں کونسی ایسی بڑھک تھی جو نہیں لگائی لیکن ان کی آمد کے بعد ان کے کیسز تو معاف ہو گئے گویا انہیں اور ان کی ذات کو فائدہ پہنچ گیا‘عوام اور ملک کی حالت البتہ اتنی ابتر ہوچکی ہے کہ اس وقت عام آدمی کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول تقریبا نا ممکن ہوچکا ہے‘حکومت کچھ بھی کہے‘میڈیا پر گونجنے والے ایسے سوالات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسحاق ڈار جب بھی وزیر خزانہ بنتے ہیں ملک میں ڈالر سے متعلقہ مسائل جنم لیتے ہیں‘ڈالر کا کاروبار ملک میں مافیا شروع کردیتی ہے‘زرمبادلہ کے ذخائر گھٹنے لگتے ہیں‘ترسیلات زر کم ہونے لگتی ہے‘ہر طرح کے معاشی مسائل دو چند ہوتے ہیں‘جبکہ اسحاق ڈار ڈالر کو مصنوعی طریقے سے روکتے ہیں‘جس کے نتیجہ میں معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اور اسحاق ڈار اس پر اپنی واہ واہ کرواتے ہیں کہ ڈالر کی قدر کو انہوں نے روپے کے مقابلے میں انقلابی ترقی دے کر روک رکھا ہے‘اس مرتبہ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا جس کے بعد سب نے دیکھا کہ آئی ایم ایف نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ ڈالر کو روپے کے مقابلے میں مصنوعی نرخ پر رکھا گیا‘جس سے معیشت بری طرح تباہ ہوئی اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی نے حکومت کی معاشی پالیسی کا سر بازار ڈھنڈورا پیٹ دیا‘اب اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کی شرائط پر ایک سو 70ارب کے لگ بھگ منی بجٹ پیش کردیا ہے‘ رات کے اندھیرے میں پٹرول 22 روپے، ڈیزل 18 روپے جبکہ گیس کی قیمت میں 113 فیصد اضافہ کردیا، جس کے بعد ملک میں مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ہے‘ہر بنیادی اشیاء ضروریہ اور خوردو نوش سے لیکر ادویات تک ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے‘لوگ آہ و فغاں کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں مگر صدحیف حکمران صرف اور صرف اب بھی عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں‘محترمہ مریم نواز‘وزیر اعظم‘اسحاق ڈار‘وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خاں غرضیکہ کسی کی بھی گفتگو ملاحظہ کرلیجئے صرف اور صرف عمران خان پر تنقید کے نشتر برسانے میں مصروف ہے‘یہی مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے‘انہیں اب تک سمجھ نہیں آرہی کہ عمران خان کی حکومت کا یہ تختہ سازش کے تحت الٹ چکے ہیں‘عمران خان ان کے سروں پر لیکن ابھی تک جنون کی طرح سوار ہے‘انہیں عمران خان کا خوف ہے اور یہی خوف ان کی شکست کا پیش خیمہ بن چکی ہے‘اسی لئے انتخابات کے نام سے رات کو خواب میں بھی ڈر جاتے ہیں‘ ایک بات موجودہ حکمران یاد رکھیں:یہ عوام کے ساتھ جو سوتیلی ماں سے بدتر سلوک کررہے ہیں‘ ان کی سیاست ہمیشہ کیلئے دفن ہوچکی ہے‘عوام کو جیسے ہی موقع ملا وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ان حکمرانوں سے اپنی محرومیوں کا انتقام لے لیں گے لیکن اگر الیکشن نہ کروائے گئے تو پھر وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ عوام آج تک باہر نہیں نکلے اور نہ ہی نکلیں گے‘اس مرتبہ جس حد تک مہنگائی‘دھونس دھاندلی اور جس طرح اپنے کرپشن کے تمام کیسز ختم کئے گئے ہیں اگر عوام کو مزید ذلیل و خوار کیا گیا تو وہ نہ صرف باہر نکلیں گے بلکہ حکمرانوں کے پاس شاید اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو کہ وہ اقتدار سے الگ ہوجائیں‘ویسے بھی موجودہ حکمران اقتدار سے صرف ڈھٹائی کیساتھ چمٹے بیٹھے ہیں‘ان کے پاس نہ تو عوام کی نمائندگی ہے اور نہ ہی عوام کی حمایت انہیں حاصل ہے‘یہ روز اپنی عوام اور ملک دشمن پالیسیوں کے باعث عوامی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گرفتاریوں‘مقدمات کی بوچھاڑ سے آواز مخالف دبا لیں گے یا بند کر لیں گے تو یہ فقط ان کی خام خیالی ہے‘عوام کسی طورپر خاموش بیٹھنے والے نہیں‘ملک میں انقلاب آئے یا نہ آئے؟ اس سوال سے قطع نظر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تیرہ جماعتوں کا اتحاد عوام کو انقلاب کی راہ پر گامزن کردیگا کیونکہ جب عوام کے پاس کھانے کو پیسے نہیں ہونگے‘ادوایات خریدنے کیلئے وہ اپنی خالی جیب کیساتھ بے بس ہوگی‘بچے بھوک سے بلبلائیں گے‘بزرگ ادوایات کو ترسیں گے‘غریب چند ہزار روپے کی تنخواہ پر جانوروں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگا تو پھر چاہے سمت مخالف سے مقدمات کی بوچھاڑ ہی کیوں نہ کردی جائے‘گرفتاریوں کے نئے ریکارڈ ہی کیوں نہ قائم کردئیے جائیں‘عوام جوق در جوق باہر نکلیں گے‘حکمرانوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اپنا آئینی اور جمہوری حق احتجاج استعمال کرینگے‘ عمران خان نے تو جیل بھرو تحریک کا اعلان کر رکھا ہے‘عمران خان عوام کی قیادت کرنے کیلئے تیار نہ بھی ہوئے تو بھی عوام اپنی محرومی پر ایسی پھٹے گی کہ اسے کسی قیادت کی ضرورت نہیں ہوگی اور وہ حکمرانوں سے ٹکرا جائیگی‘اس وقت کے غیظ و غضب سے ڈرئیے اور بچئے‘عوام کے پلے کچھ نہ چھوڑا تو عوام حکمران اشرافیہ کے پلے بھی کچھ نہیں چھوڑے گی‘یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ پی ڈی ایم کا مخالف عمران خان ہو یا نہ ہو‘ پی ڈی ایم عوام کی مخالف بن کر ابھری ہے‘آٹا‘ چینی‘ گھی‘ ادوایات‘ کپڑے‘ بجلی‘گیس‘پٹرول وغیرہ وغیرہ عوام سے چھینا گیا تو حکمرانوں‘عوام آپ سے اقتدار چھین لے گی‘کوئی پولیس‘کوئی ایف آئی اے اور کوئی سرکاری محکمہ عوام کو اس کی طاقت کے اظہار سے اس وقت نہیں روک سکتی جب عوام اپنے حقوق کیلئے سب کچھ پس پشت ڈال کر باہر نکل آئی ہو‘شاید حکمران اشرافیہ اور ان کی پروردہ بے حس اشرافیہ اسی وقت کا انتظار کررہی ہے‘جو اگر ایسے ہی منی بجٹ وغیر کی صورت میں ظلم جاری رہا تو زیادہ دور نہیں‘تب کوئی تاویل اور تجزیے دلائل کی صورت میں عوام کا غصہ ٹھنڈا نہیں کر پائینگے‘آخر 75سالوں سے آپ جھوٹ اور فریب کا سہارا ہی تو لیتے آرہے ہیں۔