حکومت نے ایک بار پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے جبکہ بجلی کی قیمتوں میںبھی اضافہہو چکا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمیکا رجحانہے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یہاں بھی قیمتوں میں کمی ہوتی مگر پاکستان میں یہ قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ اب مہنگائی کا سیلاب طوفانی لہروں کی شکل اختیار کرلے گا اور ماہِ مقدس کی بابرکت راتوں میں حکمرانوں کی شان میں عوام کے پاس محض ’قصیدہ گوئی‘ کے اور کوئی چارہ نہیں رہا۔ حکومت کی کار گزاریاں مشاہدے کے لائق ہیں۔ کچھ عرصہ قبل حکومت نے وفاقی سیکرٹریز کو ایگزیکٹو الاؤنس میں خاطر خواہ اضافے کا نوٹی فیکیشن جاری کیا اور چند دن بعد وزیراعظم پاکستان نے کچھ وزرا ء کے ہمراہ (کچھ عرصہ)تنخواہیں نہ لینے کا اعلان کردیا۔یعنی کس بات پہ یقین کریں اور کس پہ نہ کریں یہ یقین کرنے اور نہ کرنے والے کی سو چ پر منحصر ہے یا پھر آپ کی سیاسی وابستگی پر منحصر ہے۔ ہاں یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ پر مشتمل ہے جس میں وفاقی وزرائ،وزرائے مملکت، مشیران اور معاونین پر مشتمل فوج ظفر ِ موج کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اگر پاکستان میں کسی اندھے،گونگے یا بہرے کو بتایا جائے کہ یہ سب ’مفت‘ کام کررہے ہیں تو اْس کے لئے یقین کرنا مشکل ہوگا کیونکہ وہ غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ یہ ’مفت خورے‘ امیر سے امیرتر ۔ پاکستان کو آزاد ہوئے قریباََ چھتر سال ہونے کو آئے ہیں مگر ہمارے ہاں تاحال سیاسی استحکام قائم نہیں ہوسکا۔ مارشل لاء لگے۔ کئی طاقتور طالع آزماؤں نے اپنا بیانیہ پیش کیا اور ملک کی سَمت اپنے انداز سے طے کی اور ملک کی باگ ڈور اِس انداز سے سنبھالی کہ اْن سے قبل ملک انتہائی غلط ڈگر پہ چل رہا تھا۔ جونہی وہ اقتدار کی راہداریوں سے الگ ہوئے تو ہر نئے آنے والے حکمران نے سابقہ حکمران اور سابقہ حکومت کو تاریخ کی بدترین حکومت قرار دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سابقہ حکومت اور حکمرانوں پر بدعنوانی، اختیارات سے تجاو ز، چوری، ملکی خزانوں پہ ڈاکہ زنی، ملک میں مہنگائی لانے،ملک پر قرضہ چڑھانے اور ملک کو اندھیروں میں دھکیلنے کا ذمہ دار قرار دیا۔مگر ہر بار وطن ِ عزیز کو بدنامی اور عوام الناس کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ حیران کن طور پر تقریباََ سبھی طالع آزماؤں، اْن کے ساتھیوں یا اْنہیں لانے والے کرداروں نے اعتراف ِ جرم بھی کیا کہ وہ جان بوجھ کراپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر سیاسی مہروں کو اقتدار میں لائے۔ حال ہی میں ایک ایسی حکومت کے متعلق بھی ملتے جلتے بیانات سامنے آئے ہیں۔ اِس کے باوجود کسی بھی کردار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔اگر تھوڑی بہت ہوئی تو اْسے سیاسی انتقام قرار دیا گیا۔ دوسری جانب ہمسایہ ملک میں آج تک کسی طالع آزماء کو اقتدار پہ جابرانہ انداز میں قابض ہونے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اگرچہ وہاں بھی کچھ وزرائے اعظم کو قتل کیا گیا۔ حکومتیں گرائی گئیں مگر سیاسی استحکام بہرحال برقرار رہا۔ جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ آج بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ غربت میں کمی لانے جیسے اقدامات اْٹھائے جارہے ہیں۔ ہمارے اور بھارت بلکہ ہمارے اور بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائرمیں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھارت بلاشبہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے مگر جس(ملک) کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے وہی طاقت کا اظہار کرتا ہے۔ کمزور کبھی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا نہیں سوچتا۔ ہم بلاشبہ معاشی طور پر کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم پچیسویں بار انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کے سامنے ہاتھ پھیلائے بیٹھے ہیں اور سٹاف لیول ممکنہ معاہدے پر پوری ڈھٹائی سے شادیانے بجارہے ہیں۔ قرض لینا تو انتہائی شرم اور لاچارگی کی علامت ہوتی ہے۔ قرض مانگنے یا قرض ملنے کے اعلانات کو ’خوشخبری‘ سے موسوم کرنا نہ صرف قوم بلکہ وطن ِ عزیز کے وقار کو بھی دھچکا لگا نے جیسا ہے۔ پچھلے دنوں ایوانِ بالا میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے اپنی پوری ہمت و سکت کو بروئے کار لاتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں اپنی انا اور نفرت کو پس ِ پشت ڈال کر آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر ملک اْٹھتا ہے تو ہمیں اپنی سیاست اور اپنی جانوں کی قربانیاں دینے سے گریز نہیں کرنا چاہئے بلکہ ملک کے سامنے یہ قربانی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ عمومی طور پر ایسے بیانات وزرائے اعظم ہی دیتے ہیں کیونکہ حز ب ِ اختلاف میں رہتے ہوئے وہ مرنے مارنے پہ تلے ہوتے ہیں مگر جونہی وہ اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہوتے ہیں وہ قوم کو ’صبرکرنے، کڑوی گولی اور مہنگائی کا بوجھ برداشت‘ کرنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ اْ ن کی اپنی پوری توجہ اپنی جیبیں بھرنے، بیرون ِ ملک اثاثہ جات بنانے اور اپنے اولاد کو بیرون ِ ملک قدم و کاروبار جمانے پہ لگی ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک اور وزیراعظم پاکستان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اْنہیں پچھتر سال سے اقتدار کی راہداریوں میں گھومنے کا تجربہ ہے آج تک اقتدار کے ایوانوں میں ایک قانون ایسا نہیں بنایا گیا جس کا مقصد عوام الناس کی بھلائی، فلاح و بہبود اور ملک کی تعمیر وترقی کو مدِ نظر رکھا گیا ہو۔ انہوں نے بلاشبہ درست فرمایا کہ ہر حکومت ہر قانون اِس بات کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے بناتی ہے کہ حکومت کیسے کرنی ہے یا حکومت کو کیسے مستحکم کرنا ہے۔ وطن ِ عزیز میں یہ سب اِس لئے بھی ہورہا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں کو مکمل یقین ہے کہ اْن پر ملک کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ وہ گرفتار ہونگے تو سیاسی انتقام کا نعرہ لگائیں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ تاحال اْن کا احتساب ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ اِن بائیس خاندانوں کے بائیس ہزار افراد نے ملک کی صنعتوں، کاروباری یونٹس، سیاسی و ریاستی اداروں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کب تک قانون ِ قدرت کے شکنجے سے بچے رہتے ہیں۔