زمان پارک میں جو کچھ ہوا‘ کیا جمہوریت میں اس کی کوئی گنجائش ہے؟ حکومت کا موقف ہے کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیلئے سارے اقدام اٹھائے گئے۔ کیا اسی روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خاں نے مسلم لیگ ن کے کنوونشن میں اعلان نہیں کیا کہ آج اس چوہے کو گھر سے باہر نکالیں گے اور اسے ہر حال میں گرفتار کرینگے۔ کیا اسی کنوونشن میں محترمہ مریم نواز نے جوش خطابت میں نعرہ نہیں لگایا تھاکہ جب تک عمران خان کو گرفتار نہیں کروگے‘ ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہیں کروگے، الیکشن نہیں ہونگے‘ جب محترمہ اور وفاقی وزیر داخلہ نے ایسے اعلانات کئے تھے تو پھر غیر جانبداری کا دعوی کیسا؟ درحقیقت موجودہ حکمران ہر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ انہیں اب سچ بھی جھوٹ اور جھوٹ بھی سچ لگتا ہے‘ بہرحال جو کچھ ہوا‘ جیسے بھی ہوا‘ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے آپریشن ناکام بنایا یا پولیس بار بار کی کوششوں اور چار اضلاع کی پولیس پسپا ہوئی یا جو بھی ہوا‘ سوال پنجاب کی نگران حکومت کی غیر جانبداری پر اٹھتاہے‘ نگران وزیر اعلی رات کے دوسرے پہر ایک ہنگامی اجلاس کی سربراہی کرتے ہیں اور یکا یک آپریشن پولیس کے تازہ دم دستوں کے ہمراہ شروع ہوجاتاہے‘ اس کے باوجود مزاحمت ہوتی ہے‘ ایک پولیس اہلکار تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب کے مطابق آپے سے باہر ہو کر فائر کھول دیتا ہے جو زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے دروازے پر بھی لگتا ہے‘ اگر خدا نخواستہ پنجاب پولیس اپنے روایتی رنگ ڈھنگ اختیار کرلیتی‘ پھر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالے حالات سانحہ ماڈل ٹاؤن سے زیادہ بھیانک ہوتے‘ پولیس نے اپنے طور پر کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی لیکن تحریک انصاف کے جن کارکنوں کو ممی ڈیڈی اور برگر کارکن کہا جاتا تھا‘ وہ کسی بھی جماعت کے کارکنوں سے زیادہ مضبوط نکلے‘ تاہم لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد اللہ اللہ کر کے پولیس زمان پارک سے گئی اور مادر وطن سے خطرے کے بادل ٹلے‘ شاید تاحال وفاقی حکومت‘ نگران پنجاب حکومت‘ پولیس اور لندن پلان کیلئے بے تاب نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو علم نہیں کہ اگر تحریک انصاف کے جنون کو غیر جمہوری انداز میں روندنے کیکوشش کی گئی تو ملک میں ردعمل واقعی ناقابل برداشت ہوگا‘ اس کا اندازہ ویسے تو انہیں 9 اپریل 2022ء کے بعد ہوجانا چاہیے تھا‘ اب بھی جس طرح زمان پارک میں آپریشن کے ردعمل میں پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے‘ دھرنے اور ریلیاں شروع ہوئیں‘ اس سے بھی حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لے لینے چاہیں‘ اس وقت ایک سوال پی ڈی ایم کے کیمپ سے تواتر کیساتھ اٹھایا جا رہا ہے کہ سیاسی رہنما گرفتاری کیلئے ایسی مزاحمت نہیں کیا کرتے‘ عمران خان گدڑ‘ ڈرپوک اور بزدل ہیں‘ انہوں نے گرفتاری کیوں نہیں دی‘ تاوقت عمران خان پر 82 مقدمات درج ہیں‘ عمران خان مسلسل کہہ رہے تھے کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے‘ کسی مذہبی جنونی کو آگے کرکے انہیں قتل کروا دیا جائیگا اور کہا جائیگا کہ مذہبی جنونی نے ایسا کیا‘ پھر سب نے دیکھا: وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا‘ اس حملے کے آدھے گھنٹے کے بعد گرفتار ملزم کا ویڈیو بیان جاری کردیا گیا‘ جس پر سب نے کہا کہ یہ طوطے کی طرح رٹا رٹایا بیان پڑھ رہا ہے‘ اس کے منہ میں الفاظ ڈالے جارہے ہیں جن کو یہ ادا کررہاہے‘ عمران خان نے حملے کیلئے جن حکومتی ذمہ داران کو نامزد کرنے کی کوشش کی‘ انکے خلاف مقدمہ درج نہ ہوا‘ پولیس کی طرف سے کبھی کمپیوٹر خراب‘ کبھی بجلی کی خرابی کے بہانے سامنے آتے رہے۔ پولیس کی مدعیت میں بعدازاں ایک مقدمہ درج کیا گیا جبکہ اس وقت کے وزیر اعلی پرویز الہی کی طرف سے ملزم کا ویڈیو بیان سامنے آنے پر شدید برہمی کے اظہار کے باوجود ملزم کا ایک اور بیان سامنے آگیا‘ عمران خان کے کہنے پر پرویز الہی نے پنجاب میں جے آئی ٹی قائم کی‘ اس جے آئی ٹی کے ساتھ سارے متعلقہ لوگوں حتی کہ پولیس افسران نے بھی تعاون کرنے سے انکار کردیا‘ اس کے بعد جب پنجاب اسمبلی تحلیل کردی گئی تو پی ٹی آئی نے میڈیا کو بتایا کہ جے آئی ٹی کے متعلقہ آفیسرز کو تبدیل کیا گیا‘ جہاں جے آئی ٹی کادستاویزی مواد موجود تھا اس کمرے کو سیل کردیا گیا‘ قبل ازیں بتایا جاتا تھا کہ جے آئی ٹی ٹیم پر شدید دباؤ ہے‘ انہیں عدالت میں ریکارڈ جمع کروانے سے روکا جارہا ہے اور دھمکیاں دی جارہی ہیں‘ اس سارے کھیل کے علاوہ مسلسل کہا جاتا رہا کہ عمران خان کو کوئی گولی نہیں لگی‘ یہ جھوٹ بولتے ہیں‘ ان کا مذاق اڑایا جاتا رہا‘ جیسے محترمہ مریم اورنگزیب اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف وغیرہ کہتے رہے کہ اتنی دیر میں تو چھت کا لینٹر کھل جاتا ہے‘ اس کی ٹانگ کا پلستر نہیں کھلا‘ محترمہ مریم اورنگزیب نے اس ماہ کی 14 تاریخ کو جب زمان پارک میں آپریشن شروع ہوا تو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ عمران خان نے وزیر آباد میں حملہ خود کروایا ہے‘ ان سارے حالات و واقعات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر یہ عمران خان کو گرفتار کرتے ہیں‘ ایک عدالت سے جہاں سے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں‘ وہ یہاں سے ضمانت حاص کرلیں تو ان کی کسی اور کیس میں گرفتاری ڈال دی جائیگی‘ گویا ایک سے دوسرے کیس میں ان کی گرفتاری ڈالی جاتی رہے گی اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو مزید مقدمات بھی درج کرلئے جائینگے‘ جیسے پی ٹی آئی کا رکن ظل شاہ جاں بحق ہوا‘ اس کا مقدمہ عمران خان کیخلاف درج کرلیا گیا‘ پھر اسی کیس میں شواہد مٹانے کا ایک اور مقدمہ عمران خان پر درج کیا گیا جبکہ پولیس یہ موقف پیش کر چکی ہے کہ ظل شاہ ایک حادثے میں جاں بحق ہوا‘ دراصل یہ عمران خان کو گرفتار کرکے وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، جس کا اظہار خود عمران خان کر رہے ہیں‘ ہماری سیاسی تاریخ میں ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو بھی جیل گئے تھے اور زندہ واپس نہیں آئے‘ لہذا جس طرح عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مذاق اڑایا جاتا ہے‘ ان کے یہ خدشات ناقابل نظر انداز ہیں کہ جن پر انہیں وزیر آباد میں ان کو قتل کروانے کا شبہ ہے‘ ان کے ہاتھوں گرفتاری درست نہیں!