چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل عاصم منیر نے افغان طالبان کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ افغانستان سے سرحد پار حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے عسکریت پسندوں کو پناہ دینے سے روکنے میں ناکام رہے تو پاک افواج کی جانب سے ''موثر جواب'' دیا جائے گا۔ یہ سخت پیغام افغانستان کی سرحد سے متصل اپنے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی اور تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرے پر پاکستان کی مایوسی اور تشویش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ انتباہ ایک ہفتے کے اندر دو عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد سامنے آیا ہے جس میں ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں 12 پاکستانی فوجی شہید ہوئے، جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج افغانستان میں پاکستانی طالبان کی ''محفوظ پناہ گاہوں اور کارروائی کی آزادی'' کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ افغان طالبان واشنگٹن کے ساتھ 2020 کے معاہدے سے اپنے وعدوں پر عمل کریں گے تاکہ کسی بھی دہشت گرد گروہ کو حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکا جا سکے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو یہ ''ناقابل برداشت حملے ایک مؤثر جواب دیں گے،'' انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے، لیکن اگست 2021 میں افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا ہے، جس نے خطے میں طاقت کا خلا اور غیر یقینی کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جس نے افغان طالبان کے اتحادی ہونے کا فائدہ اٹھایا اور مملکت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے 2007 سے پاکستانی ریاست کے خلاف خونریز شورش برپا کر رکھی ہے۔ افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے ٹی ٹی پی کا حوصلہ بڑھا، اور افغان سر زمین پر موجود ٹھکانوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر اپنے حملے تیز کر دیے ۔ خیال رہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی واحد خطرہ نہیں ہے، جس کا پاکستان کو سرحد پار سے سامنا ہے۔ بلکہ اسلامک اسٹیٹ خراساں (ISK)، جماعت الاحرار (JuA) اور نام نہاد بلوچ علیحدگی پسندوں جیسے دیگر انتہا پسند گروہوں نے بھی افغانستان میںافغان طالبان کی نرمی کا فائدہ اٹھایا اور پاکستانی اہداف پر حملے کیے ۔ پاکستان کے لیے مخمصہ یہ ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن کیسے لایا جائے، جو اب اپنے مغربی پڑوسی کے کنٹرول میں ہیں، جبکہ وہ عسکریت پسندوں کے حملوں سے اپنی سلامتی اور خودمختاری کا بھی تحفظ کر رہا ہے۔ ریاست نے ہمیشہ افغان طالبان کے ساتھ سفارتی اور سیاسی طور پر بات چیت کرنے کی کوشش کی ۔ پاکستان نے افغانستان میں پرامن اور جامع تصفیے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے چین، روس، ایران، ترکی اور امریکہ جیسے علاقائی اور بین الاقوامی قوتوںکے ساتھ تعاون کرنے کی بھی کوشش کی ۔ تاہم، افغان طالبان پر پاکستان کا اثر محدود ہو گیاہے، اور اس کے مفادات ہمیشہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔ ریاست کو افغانستان میں افغان طالبان کے دور سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے واضح اور مستقل حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس حکمت عملی میںتمام دہشت گرد اور انتہا پسند گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا شامل ہے جو اس کے علاقے سے یا اس کے اندر سے کام کرتے ہیں، ان کی وابستگی یا رجحان سے قطع نظر، ان کے بنیادی ڈھانچے، فنڈنگ کے ذرائع کو ختم کرکے ان کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے قانون کے تحت مقدمہ چلانے کی ضرورت ڈاکٹرئن تبدیل کرنا ہوگی۔ اس کے لیے FATF ایکشن پلان کو مکمل اور مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہوگی، جسے پاکستان نے حال ہی میں تین سال سے زائد عرصے تک ''گرے لسٹ'' میں رہنے کے بعد مکمل کیا ۔ افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدی حفاظت اور انتظام کو بڑھانا، بشمول باڑ لگانا، نگرانی، گشت، رابطہ کاری، اور انٹیلی جنس شیئرنگ اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے عسکریت پسندوں کی در اندازی اور لوگوں اور سامان کی غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اس کے لیے سرحد کے دونوں جانب افغان حکام اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تعلقات اور اعتماد کو بہتر بنانا ناگریز ہے۔ پاکستان نے بارہا افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے 2020ء کے معاہدے کی پاسداری کریں، جس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ وہ کسی دہشت گرد گروپ کو افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تاہم، پاکستان کی اپیلیں بڑی حد تک بہرے کانوں پر پڑی ہیں، کیونکہ افغان طالبان نے اپنے عسکری اتحادیوں پر لگام لگانے میں بہت کم دلچسپی یا دبائو ڈالنے میں بے پروائی برتی ۔ پاکستان کو ایک مخمصے کا سامنا ہے، اپنی سلامتی اور مفادات کو خطرے میں ڈالے بغیر افغان طالبان سے کیسے نمٹا جائے۔ ایک طرف، پاکستان افغان طالبان کو الگ نہیں کرنا چاہتا، جو اب اپنے مغربی پڑوسی پر موثر کنٹرول میں ہیں اور قبائلیوں کے ساتھ تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات کا اشتراک کرتے ہیں۔ پاکستان کو بھی امید ہے کہ وہ افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا، جس سے دونوں ممالک کو اقتصادی اور تزویراتی طور پر فائدہ ہوگا۔ دوسری طرف، پاکستان افغانستان میں مقیم عسکریت پسند گروپوں کے سرحد پار حملوں کو نظر انداز کرنے یا برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، جو اس کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ پاکستان، افغان طالبان کی حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی تنہائی اور پابندیوں سے بھی بچنا چاہتا ہے، جسے بہت سے ممالک بڑے پیمانے پر ناجائز اور جابرانہ دیکھتے ہیں۔ریاست، افغان طالبان اور ان کے عسکریت پسند اتحادیوں کی طرف سے درپیش چیلنجز کے مقابلہ میںمضطرب ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتی۔ اسے اپنے مفادات کے تحفظ اور علاقائی امن و استحکام میں کردار ادا کرنے کے لیے ذمہ داری اور عزم کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔