وہ اپنی جون بدلنے پر قادر ہو گیا تھا۔جب چاہتا جون بدل لیتا۔وہ مختلف جونیں بدلتا اور مزے کرتا۔کبھی سانپ بن جاتا اور اپنے ان دوستوں کو پہلے کاٹتا جو ان سے آگے نکل گئے تھے۔دوسری باری پر ان کو کاٹتا جو اس کے برابر آنے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔ان پر دانت زیادہ گہرے گاڑنے کی پریکٹس کرتا۔اس کے دوستوں دشمنوں کو کچھ پتہ نہ چلتا کہ اس ماڈرن دور میں کیسے ایک پوش گھر میں بھی سانپ داخل ہو جاتا ہے۔ جب وہ مختلف جونیں بدل بدل کر تنگ آ گیا تو ایک دن اپنی آخری مہا جون میں تبدیل ہو گیا۔یہ روپ ایک کوے کا تھا۔ یہ اس کا آخری روپ تھا۔اب مرتے دم تک کوا ہی رہنا تھا۔ہم ٹھہرے نئے نئے صحافی اس سے انٹرویو کی درخواست کی جو اس نے پنجابی کاں کاں کر کے منظور کر لی۔ایک سہانی صبح کو ان سے ملنے چلے گئے۔اس وقت کسی خاص سامی کی طرف وہ اڑنے ہی والا تھا۔ہمیں دیکھ کر اس کا موڈ آف ہو گیا۔ہم نے عرض گزاری کہ ہم طے شدہ وقت کے مطابق حاضر ہوئے ہیں۔آپ کا خفا ہونا روا نہ ہے۔کہنے لگا جب کسی سامی کی طرف جانا ہو تو سب کچھ موقوف کر دیتا ہوں۔ہم نے کہا چلیں پھر کسی دن آ جائیں گے۔ وہ کاں کاں کر کے بیٹھ تو گیا مگر واٹس ایپ پر کسی کو میسج کر دیا۔یقیناً یہ میسج اس سامی کو کیا ہو گا۔پوچھا انٹرویو شروع کرنے کی اجازت ہے ؟۔اجازت ملنے پر سوال جواب کا آغاز کیا جو اپنے قارئین کے خدمت میں پیش ہے۔ سوال: آخر آپ نے مہاروپ اختیار کرتے وقت واپس انسانی روپ میں آنا کیوں گوارہ نہ کیا۔ جواب:اس کی وجہ میرا ادب سے لگاؤ ہے۔چونکہ ہر ادیب دوسرے کا جانی دشمن ہے لہذا ان کے گھروں کی منڈیروں پر بیٹھ کر میں ضروری سن گن لے سکتا تھا۔دوئم اقبال کے مرشد نے میری مہاجون کے بارے ارشاد فرما دیا تھا۔آپ ذرا کم علم ہیں میرا اشارہ مولانا روم کی طرف ہے۔انہوں نے فرمایا تھا بالِ بازاں را سوئے سلطاں بَرَد بالِ زاغاں را بگورستاں بَرَد (شاہین اور کوّے میں بال و پَر کی قدر مشترک ہے) لیکن یہ بال و پَر شاہینوں کو بادشاہوں کی طرف لے جاتے ہیں اور کوّے کو قبرستان کی طرف لے جاتے ہیں۔ سوال: اس شعر میں تو وہ شاہین کی تعریف اور آپ کو ذلیل کر رہے ہیں جواب :چونکہ آپ کا علم محدود ہے سو بیان کرنا از حد ضروری ہے کہ یہی تو ساری فلاسفی ہے۔ میں بلا تخصیص ہر ایک کو قبرستان تک پہنچا کے آتا ہوں۔مگر زیادہ تر میرا نشانہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مجھے دیسی گھی سے چپڑی اشیا دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ان کا قبر تک پیچھا کرتا ہوں۔ یہی تو مولانا روم کہہ رہے ہیں سوال: آپ اس شعر کی خود ساختہ تشریح کر رہے ہیں یا حضرت! اس نے مجھے ٹوکا اور خبردار کیا کہ اسے حضرت نہ کہا جائے۔جب کہا کہ میرا مطلب نیک بزرگ پرہیزگار والا حضرت نہیں بلکہ مدعا یہ ہے کہ آپ بہت حضرت ہیں تب وہ خوش ہوا۔تھوڑی سی چونچ آگے کی۔میں نے کہا یہ کیا بیہودگی ہے؟ سوال: آپ کس کس کی منڈیر پر بیٹھ چکے ہو۔ جواب: میں کوٹوریگو کے شاہی محل سے کیوبا کے سگاروں سے بھری دوکان تک بحر الکاہل کے دونوں جانب ممالک کی سیرگاہوں تک۔مگر سچی بات ہے جو لطف چھجو کے چوبارے ہے وہ نہ بلخ نہ بخارے ہے۔ بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے ہمارے ہاتھ پر ہاتھ رکھا یعنی پنجہ مارا اور ساتھ ہی ہنسا۔ہم معترض ہوئے تو بتانے لگا اس کا مطلب ہوتا ہے میرے جھاٹ مارنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ہم نے کہا ابھی تو محض تین سوال ہوئے ہیں ہم نے ابھی" نظریہ ِجھاٹ" کے اصولوں پر بھی بات کرنی ہے۔اور یہ بھی پوچھنا ہے کہ آخر تمہاری کامیابی کا راز کیا ہے؟۔یہ درست ہے تمہارا حلیہ، شکل شباہت اور آواز کووں سے ملتی ہے۔ کیا ان تین اوصاف کا دیکھنے والوں کو تو پتہ نہیں چل جاتا؟۔آپ اگر چیل کا روپ دھارتے تو عین مناسب تھا۔اس پر کہنے لگا یہی انٹرویو کا آخری سوال ہے۔کہنے لگا مجھے پتہ ہے تم نے یہ انٹرویو کالم میں لگانا ہے۔سو اس کے لیے مختصر مگر جامع گفتگو ضروری ہوتی ہے۔پہلے مولانا روم کا شعر سنایا تھا اب میں اپنی پسند کے اشعار سنانا چاہتا ہوں۔کہنے لگا یہ اشعار شاعر نے میری مدح میں لکھے ہیں۔ہم ہمہ تن گوش ہو گئے۔کہا تم نے اسمٰعیل میرٹھی کا نام سنا ہے۔ہم نے سر ہلایا تو قدرے ناخوش ہوا۔ہم نے ارشاد ارشاد کہا تو لہک لہک کر سنانے لگا۔ کوے ہیں سب دیکھے بھالے/ چونچ بھی کالی ، پر بھی کالے/لیکن ہے آواز بْری سی/کان میں جا لگتی ہے چھْری سی/یوں تو ہے کوا حرص کا بندہ/کچھ بھی نہ چھوڑے پاک اور گندہ/کھانے دانے پر ہے گرتا/پیٹ کے کارن گھر گھر پھرتا/تاک رہا ہے کونا کھترا/ کْچھ دیکھا تو نیچے اْترا۔ ہم نے کہا اس میں آپ کی تعریف نہیں تضحیک کی گئی ہے۔ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔عجیب مٹی کا بنا ہوا تھا۔ایک تضحیک بھری نظم سنائی اور ثانیاً اس پر اترا بھی رہا تھا۔گویا ہوا ان شاعروں کا کچھ نہ پوچھو کہتے کچھ اور ہیں مگر اس کا مفہوم اور ہوتا ہے۔غالب کو آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا۔ کیا تم دعوٰی کر سکتے ہو کہ تم نے اقبال کا پیغام سمجھ لیا ہے۔اس نے اپنی قوم کو جگانے کی کوشش کی تھی قوم نہیں جاگی۔اس کا کیا گیا؟ہم اس گوہر افشانی پر قربان ہونا چاہتے تھے مگر بھائی کوا اپنے اسلوب میں مسلسل " کاں کاں" کرتا رہا کہ ایک اسلوب ِحیات ہوتا ہے ایک اسلوب ِ واہیات۔