جنوبی پنجاب بلاشبہ محروم خطہ ہے جو اپنے اندر ریاست ِ بہاولپور کی صوبائی حیثیت میں بحال نہ ہونے ، تعمیر و ترقی میں سست روی، ثقافتی ورثے کی زبوں حالی سمیت بہاولپور میں سول سیکرٹریٹ کے قیام میں تاخیری حربوں سے جنم لینے والی مایوسی اور دیگر مسائل کا شکار ہے۔ اِن محرومیوں کے اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ لیکن سب سے اہم وجہ یہاں کے سیاسی رہنماؤں کو اپنی دھرتی سے محبت میں کمی اور خود ساختہ احساس ِ کمتری میں مبتلا ہونا ہے۔ اگر سیاسی رہنماؤں سمیت، بیوروکریسی، صنعت کار، کاروباری حضرات، اور تعلیم کے شعبہ سے وابستہ افراد اپنے اپنے شعبہ جات میں سنجیدہ ہوجائیں اور اپنا کردار ادا کریں تو یہ خطہ تعمیر و ترقی کا مرکز بن سکتا ہے۔گزشتہ روز ایک مقامی اخبار میں چھپی خبر نظر سے گزری جس میں جنوبی پنجاب میں پہلا ڈیجیٹل روڈ شو منعقد کرانے کی بات کی گئی تھی۔ خبر کے مطابق جنوبی پنجاب کے سولہ شہروں میں ’ڈیجیٹل ساؤتھ پنجاب روڈ شو2022‘کے نام سے ایک فلوٹیلا کے انداز میں یہ شومنعقد کیا جارہا ہے۔اس شو کے لئے جن شہروں کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں صادق آباد، رحیم یار خان، خان پور، ظاہر پیر، لیاقت پور، اوچ شریف، احمد پور شرقیہ، یزمان، بہاولپور، لودھراں، میلسی، حاصل پور، چشتیاں، ہارون آباد، اور بہاولنگر شامل ہیں۔ اِس روڈ شو کو پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب اور ڈائریکٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی رضوان مجید لیڈ کررہے ہیں۔ رضوان مجید جنوبی پنجاب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اْبھرتا ہوا ستارہ ہیں جنہوں نے اس روڈ شو کے انعقاد کا سوچا اور اب پروفیسر اطہر محبوب کی سربراہی میں اسے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ خبر میں بیان کی گئی تفصیل کے مطابق اس ڈیجیٹل ساؤتھ پنجاب روڈ شو کا مقصد آئی ٹی کی صنعت سے وابستہ افراد کو نہ صرف ایک نیٹ ورک کے ذریعے باہمی طور پر جوڑنا ہے بلکہ جنوبی پنجاب میں انفرادی طور پر کام کرنے والے آئی ٹی ماہرین کو ایک اجتماعی پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ اس روڈ شو میں چالیس سے پینتالیس آئی ٹی کمپنیاں حصہ لے رہی ہیں، درجنوں آئی ٹی ماہرین اپنی انفرادی اور مجموعی کامیابیوں کے متعلق عوام الناس خصوصاََ سولہ شہروں میں پائے جانے والے کالجوں اور جامعات کے طلبہ و طالبات کو آگاہی فراہم کریں گے کہ آئی ٹی کے کاروبار کو وہ کیسے وسعت دے سکتے ہیں اور اس ذاتی کاروبار کے ذریعے وہ ملک و قوم کی کیسے خدمت کرسکتے ہیں۔ اس دس روزہ روڈ شو میں درجنوں آئی ٹی کمپنیوں کے چیف ایگزیکیٹو ز شامل ہورہے ہیں۔ عمومی طورپر یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑے شہروں میں طلبہ و طالبات سمیت پڑھے لکھے افراد کو آئی ٹی کی کانفرنسز کے انعقاد سے مختلف پروجیکٹس کے متعلق آگاہی رہتی ہے مگر جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقوں میں یہ سہولیات شہریوں کو میسر نہیں ہیں۔ آئی ٹی کاروبار کے ماہرین جانتے ہیں کہ اس بزنس میں جو چیز ایک ٹیک کمپنی کی طاقت ہوتی ہے وہی دوسری کمپنی کی کمزوری ہوتی ہے، اس روڈ شو کے ذریعے جنوبی پنجاب کی تمام ٹیک کمپنیز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جارہا ہے جو یقینا ایک شاندار کارنامہ ہوگا۔ اس کا عملی نمونہ گزشتہ سال Tech Nation کانفرنس کے انعقاد کے بعد جنوبی پنجاب میں دیکھنے کو ملا۔ اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے بعد بہت سارے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین جنوبی پنجاب سے دبئی، بحرین اور دیگر ممالک میں گئے اور بہت سارا بزنس لے کر پاکستان میں آئے، ایسے بہت سارے پروجیکٹس پاکستان میں ان ٹیک کمپنیز نے شروع کئے جو پہلے بھارت اور دیگر ممالک کی کمپنیاں کررہی تھیں، یوں کثیر زرِ مبادلہ پاکستان آیا۔ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کی حکومتوں اور نجی اداروں کے کئی پروجیکٹس یہ ٹیک کمپنیاں جنوبی پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں میں بیٹھ کر پایہ تکمیل تک پہنچا رہی ہیں اور کثیر زر ِ مبادلہ پاکستان لارہی ہیں۔ اس وقت اِس آئی ٹی انقلاب سے دو چیزیں جنوبی پنجاب میں نموپارہی ہیں۔ جنوبی پنجاب خصوصاََ رحیم یار خان، مغربی بہاولپور اور بہاولنگر کے علاقوں میں زراعت سب سے بڑا پیشہ مانا جاتا ہے۔ عوام الناس کی اکثریت زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہے۔ مگر زراعت کے شعبہ سے وابستہ افراد زیادہ تر ناخواندہ ہیں۔اب دوسرا پیشہ آئی ٹی بنتا جارہا ہے۔ کیونکہ دوسرا پہلو دیکھیں تو کثیر تعد اد نوجوانوں کی ایسی تھی جو پڑھی لکھی تو تھی مگراْن کے پاس کارآمد مہارتیں نہیں تھیں۔ یوں ماضی قریب میں جنوبی پنجاب میں بے روزگاری زور پکڑتی جارہی تھی۔ اس وسیع مارکیٹ میں نوجوانوں کی کھپت صرف آئی ٹی کے شعبہ میں ہی ممکن ہے۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب کے کلچر کو دیکھتے ہوئے خواتین اور طالبات کے لئے آئی ٹی بزنس کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا بزنس ہے کہ ٹیک انڈسٹری سے وابستہ افراد ظاہر ی طورپر اپنا ذاتی کاروبار ہی کررہے ہوتے ہیں مگر وہ براہِ راست پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب کررہے ہوتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے بچوں میں پوٹینشل موجود ہے۔اب اس روڈ شوکے ذریعے ابتدائی مرحلے میں بہاولپور ڈویژن کے پندرہ سے زائد شہروں کے متعلقہ افراد کو ایک نیٹ ورکنگ مہیا کیا جارہی ہے اور عمومی طورپر عوام الناس میں بھی شعو ر اجاگر کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ جنوبی پنجاب کو ٹیک زون ڈیکلیئر کیا جانا چاہئے اوربہاولپور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی پارک قائم کیا جائے۔۔ اس ایک اقدام سے حکومت جہاں اپنے لئے مثبت تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوگی وہیں حکومت ِ وقت یقینی طور پر کم لاگت سے وسیع پیمانے پر نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں استعمال کرکے زبردست معیشت کا آغاز کرسکتی ہے۔ آئے روز ہمارے حکمران مغربی ممالک سمیت طاقتور آقاؤں کے سامنے ایک دو ارب ڈالرز کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔جو خود اْن حکمرانوں کے لئے تو تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہی ہوگا مگر یہ ہمارے عوام کے لئے بھی شرمندگی کا باعث ہوتا ہے۔ اب پہلی بار جنوبی پنجاب میں یہ زبردست سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں، اپنی معیشت میں اور اپنے طرزِ رہن سہن میں خودہی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ ہم اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرسکتے ہیں۔ ہم بے روزگاری کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔بس حکومت ِ وقت کی تھوڑی سی توجہ درکار ہے اوریہ نوجوان نسل اسی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کاروبار سے ملکی معیشت میں ایسا انقلاب برپا کرسکتی ہے جس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔