مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں ناجائز طور پر اسرائیل نے جو بستیاں قائم کر رکھی ہیں، یہاں کے باشندے فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہاں مقیم اسرائیلی شہریوں کا قانون کی نظر میں کیا مقام ہے؟ کیا وہ عام شہری ہیں یا جنگ جو اور دہشت گرد؟ ان غیر قانونی بستیوں کے مکین دو دائروں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ ایک وہ جو واقعتا عام شہری ہوں گے۔ ان میں بچے بھی ہوں گے اور عورتیں بھی۔ ان میں ایسے بھی ہوں گے جن کا اسرائیل کی فوجی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ ناجائز بستیوں کا مکین ہونے کے باوجود بین الاقوامی قوانین کے مطابق انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی عام شہری کو جنگ کے دوران حاصل ہوتے ہیں۔ تاہم ان بستیوں کے جو مکین اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوں یا مقبوضہ جات میں مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہتے ہوں، ان کی قانونی پوزیشن کیا ہو گی؟ اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی فلسطینیوں کے خلاف جو کارروائیاں شروع ہوئیں اور جس طرح انہیں ان کے علاقوں سے ہی بے دخل کیا گیا، ان میں اسرائیل کی فوج کے ساتھ ساتھ یہ آباد کار بھی شامل تھے۔ راجر راڈی نے اپنی کتاب میں تفصیل سے بتایا ہے کہ ان مظالم میں اسرائیل کی فوج کے ساتھ ساتھ یہ settlers بھی شامل رہے۔ 7 اکتوبر کے بعد بھی، جب دنیا کا فوکس غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام پر تھا، مغربی کنارے کے علاقے میں ان اسرائیلی settlers نے مسلمانوں پر اسی انداز سے حملے کیے جیسے اسرائیل کے قیام کے بعد کیے گئے اور اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں۔ پہلے ہی ہفتے میں یہاں ان settlers نے 60 فلسطینیوں کو قتل کر دیا اور زیتون کے متعدد درختوں کو جلا دیا۔ ان settlers کے ہاتھوں فلسطینوں پر ہونے والے مظالم کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان کی جان، مال، عزت، آبرو، مذہب ہر چیز کو ان settlers نے اپنا نشانہ بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کے آفس فار کوآرڈینیشن آن ہیومن افیئرز کے مطابق زیتون کے درختوں کو جلانا اور جڑ سے اکھاڑ دینا ان settlers کا ایک مرغوب طریق واردات ہے کیوں کہ س سے فسطینیوں کی معیشت جڑی ہوئی ہے۔ صرف 2 سالوں میں ان ناجائز آبادکار یہودیوں کے ہاتھوں 18 ہزار سے زائد زیتون کے درختوں کو نقصان پہنچا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ ناجائز آبادکار فلسطینیوں کی زرعی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے ان کے جانوروں کو زہر بھی دے دیتے ہیں۔ 3۔ آئرش ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک رات کے حملے میں زیتون کے پندرہ سو سے 2 ہزار درختوں کو جلا دیا گیا ۔ اسرائیلی اخبار Haretz کے مطابق اسرائیلی پولیس کو درج کرائی گئی 97 فیصد سے زائد درخواستیں بغیر کسی کارروائی کے نبٹا دی جاتی ہیں۔ فلسطینیوں کے علاقے میں ان کے پانی کے کنویں میں مردار پھینک دینے کے واقعات بھی ہو چکے ہیں۔ پانی کے کنووں میں زہر ملانے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اتھارٹیز جان بوجھ کر ان واقعات پر کارروائی نہیں کرتیں۔ مساجد جلانے اور قرآن و احادیث کی بے حرمتی کے واقعات بھی ہو چکے ہیں۔اسی طرح یہودی آبادکار مساجد کی دیواروں پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نا زیبا کلمات بھی لکھ جاتے ہیں۔۔ مسلمانوں کے سکولوں کے باہر Death to the Arabs اور Holocaust to the Arabs جیسے نعرے پینٹ کر دیے جاتے ہیں۔ یہ سب ایک پالیسی کے تحت ہوتا ہے جس کا تذکرہ گذشتہ کالموں میں ہو چکا ہے۔ یعنی یہ آبادکار اسرائیل کا تزویراتی بازوئے شمشیر زن ہیں۔ چنانچہ ان کی باقاعدہ سرپرستی کی جاتی ہے، مالی لحاظ سے بھی اور قانونی اعتبار سے بھی۔ مالی اعتبار سے تو ہم پچھلے باب میں پڑھ چکے کہ ان کے لیے 10 ملین ڈالر سالانہ کا بجٹ رکھا گیا اور اس کے عوض ان سے (بظاہر) جاسوسی وغیرہ کی خدمات لی جاتی ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں قانون سے بچاؤ کی حفاظتی چھتری بھی مہیا کی گئی ہے۔ اسرائیل میں قائم حقوق انسانی کے ادارے '' بتسلیم'' کے مطابق جب یہ آبادکار فلسطینیوں پر مظالم کرتے ہیں تو آس پاس موجود اسرائیلی فوج انہیں بالکل نہیں روکتی اور اسرائیلی فوج کی یہ خاموشی اسرائیل کی پالیسی کا حصہ ہے۔ بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ اسرائیلی فوج ان مظالم میں ان آبادکاروں کی معاونت کرتی ہے۔ بعض صورتوں میں یہ فوجی ان اسرائیلی آبادکاروں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں پر ظلم کرتے ہیں یا پھر لاتعلق ہو کر دوسری طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ ''بتسلیم'' کے مطابق 15 سال میں اکٹھے کیے اعدادوشمار سے معلوم ہوا کہ ان ناجائز آبادکار یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں پر فلسطینی علاقوں کے اندر ان مظالم کی درج شکایات میں سے 91 فیصد شکایات کو بغیر کارروائی کے داخل دفتر کر دیا گیا۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ سب کچھ اسرائیلی ریاست کی سرپرستی میں ہو رہا ہے ا ور باقاعدہ پالیسی کے تحت ہو رہا ہے تا کہ فلسطینیوں کی زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کیا جا سکے۔ اسرائیلی فوج کے مظالم کی طرح ان آبادکاروں کے مظالم بھی منظم انداز سے ہوتے ہیں اور ان کے پاس جدید اسلحہ بھی ہوتا ہے۔ رپورٹ میں ان حملوں کے لیے Organized and institutionalized کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے: The settlers are not defying the state; they are doing its bidding. یعنی آباد کار ریاست کی حکم عدولی نہیں کر رہے بلکہ ریاست کے حکم پر عمل کر رہے ہیں۔ ''بتسلیم'' کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں لڑائی کے نام پر اسرائیلی فوج ا ور ان آبادکاروں نے مل کر ان اطراف میں بھی مسلمانوں سے گاؤں کے گاؤں خالی کروا لیے ہیں اور ان پر قبضے کر لیے ہیں جو غزہ کی بجائے مغربی کنارے کی حدود میں واقع ہیں۔ ان آبادکاروں کی کارروائیوں پر قانونی پوزیشن یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو کوئی اختیار نہیں، وہ قانونی طور پر ان کو نہ گرفتار کر سکتی ہے نہ ان پر مقدمات قائم کر سکتی ہے۔ قانون یہ ہے کہ اسرائیلی یہودی آبادکار بھلے فلسطینی علاقوں میں بھی جا کر کارروائی کریں تب بھی ان کے خلاف شکایت اسرائیل جا کر اسرائیلی پولیس کو کرنا ہو گی۔ پھر یہ کہ ایک ہی علاقے میں اگر فلسطینی کے خلاف شکایت ہے تو اس پر مقدمہ فوجی قانون کے تحت بنے گا لیکن اگر اسرائیلی آباد کار کے خلاف شکایت ہے تو مقدمہ اسرائیل کے سول لا کے تحت قائم ہو گا۔ چنانچہ یہ اسی اشتراک باہمی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت بھی جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ایک طرف غزہ آتش و آہن کے نشانے پر ہے تو دوسری جانب مغربی کنارے میں اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق اسرائیلی فوج اور مسلح آبادکاروں نے مل کر سینکڑوں فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے۔ یہ ریاست ہی کے بازوئے شمشیر زن کے طور پر بروئے کار آ رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ '' سویلین'' اسرائیلی فوج ہی کے عسکری سہولت کار ہیں۔