حکومتیں تبدیل کرنے سے کام نہیں بن رہا۔اب حالات بدلنے ہوں گے۔21ربع حصہ گزرنے کو ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے شاید ہم ایک اجلی اور روشن داستان لکھنے کے قابل ہو جائیں گے لیکن امکانات کی یہ لکیریں کیوں نا امیدی میں تبدیل ہو رہی ہیں؟ اس کا کوئی صاحب اختیار و اقتدار جواب نہیں دے رہا۔ نا جانے کیوں یہ دیکھ کر اور تاریخ کے اوراق الٹ کرحوصلہ ہوتاہے۔ آپ چین کی مثال لے لیں دنیا اسی ’’سپر پاور‘‘ کو 80 سے نوے سال پہلے تک افیونی ریاست پکارتی تھی۔ اس وقت چین میں سمندر پار تجارت اور ماہی گیری پر پابندی تھی۔ اس کے شہنشاہوں نے بھی سائنسی ترقی کاراستہ روکنے کے لیے 1736ء میں ملک بھر کی بھٹیاں بجھا دی تھیں۔ انقلاب کے بعد صورتحال اتنی حوصلہ افزا نہیں تھی کیونکہ ماؤزے تنگ نے نہ صرف میاں بیوی کے ’’تعلقات‘‘ پر پابندی عائدکردی تھی بلکہ تعلیمی ادارے بھی بندکر دیئے جو برسوں بند رہے لیکن آج یہی چین دنیاکی جدید ترین اقوام کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے۔ آپ نظر تو ڈالیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد شکست اورتباہی و بربادی کے زخم چاٹنے والا جرمنی اور جاپان آج کہاں کھڑے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں چرچل نے کہا تھا ’’ہم جنگ نہیں ہاریں گے کیونکہ ہمارے پاس خون، پسینہ، محنت اور آنسو باقی ہیں‘‘ آئیے آج اپنا بھی چہرہ دیکھیں۔ پلوں کے نیچے سے پانی تیزی سے گزر رہا ہے۔ حالات وقت کو بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ نواز شریف کے لیے آزمائشوں کادوراب راحتوں کے موسم میں تبدیل ہو رہا ہے۔ وہ ایک نئے لاڈلے کے روپ میں ابھر رہے ہیں۔ آج نواز شریف جاتی عمرہ سے ماڈل ٹاؤن کی ان اقامت گاہوں میں وقت گزارنے لگے ہیں جہاں سے ان کی بے شمار یادیں وابستہ ہیں۔ یہیں سے انہوں نے سیاست کے پیچ وخم راستوں پر پہلی بار قدم رکھا تھا ۔کبھی ماڈل ٹاؤن میں ایک آرام دہ اورکشادہ گھر ایک یونٹ کی طرح کام کرتا تھا۔آزادی کے بعد مشرقی پنجاب کے چھوٹے سے قصبے جاتی عمرہ سے ہجرت کرکے آنے والے محمد شریف یہاں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھے کبھی کبھی میں سوچتاہوں کہ وہ کونسی طاقت تھی جس نے ایک چھوٹی سی فاؤنڈری کے مالک کو پاکستان کا بڑا صنعتکار بنا دیا آخر وہ کونسی طاقت تھی جس نے گمنامی کے پردوں کے پیچھے اس خاندان کو عالمی میڈیاکا مرغوب ترین موضوع بنا دیا۔ میں سوچتا ہوں کہ وہ کونسی طاقت ہے جس نے عام ذہنی سطح اور واجبی تعلیم کے مالک اس کشمیری خاندان کو پاکستان کاکامیاب ترین سیاسی گھرانہ بنا دیا۔ ماڈل ٹاؤن کے یہ مکین کاروبارسے سیاست میں آئے تو چھا گئے کوئی نہ کوئی خوبی تو ہوگی جس نے اسے ناقابل یقین عروج سے ہمکنار رکھا اور کبھی وہ مشکلات کے دلدل میں یوں پھسے جس پرہرکوئی یہ سمجھ بیٹھاکہ ان کی درخشندہ پیش قدمی زوال کے اندھیروں میں کہیں گم ہو گئی ہے وہ ابھرتے اورڈوبتے رہے۔اور چند ایک کو پریشان اوربہت سوں کو حیران کرتے رہے۔پاکستان جیسے پر خطر اور غیریقینی سیاسی اکھاڑے میں وہ اب تیز چلتی مگر ہچکولے کھاتی گاڑی کے سوار ہی نہیں اس کے ڈرائیور ہیں۔وہ اس کے اسٹیئرنگ پر تو جا بیٹھے ہیں اورکوئی بعیدنہیں کہ وہ چوتھی بار پاکستان کی ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھیں۔ ان کی تیاری، ان کا اعتماد، ان کا لہجہ فیصلہ سازوں کاان کے ساتھ رویہ سب کچھ بتارہاہے کہ آنے والے وقت ان کی گرفت میں آتا جا رہا ہے۔ حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ اقتدارکی آہٹ ان کے کانوں سے ٹکرا رہی ہے۔کیا وہ چوتھی بار پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں گے اس کا علم تو کسی کو نہیں لیکن یقین سب کو ہے۔ جب میں بھٹوکے سفرکا جائزہ لیتا ہوں تواس میں قربانیوں کا ایک سلسلہ ہے ۔گڑھی خدا بخش کا پرشکوہ مقبرہ اس کاگواہ ہے۔پہلے یہاں لوگ بھٹوصاحب سے اتنی عقیدت سے پھول نچھاورکرتے تھے اب بے نظیر بھٹوکے لیے آنسو بہاتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ دختر مشرق قبر میں گزرنے والی پہلی رات سے پانچ روزپہلے ہی یہاں آئی تھی۔یہاں خواتین کی قبروں پرنام نہیں لکھے جاتے ،منتظمین سے کہہ رہی تھی کہ کیسے پتہ چلے گاکہ کس قبرمیں کون سو رہا ہے۔کل میں جب یہاں دفن ہوں گی تو کیسے علم ہوگاکہ بے نظیرکہاں ہے۔ آج پورا جہان جانتا ہے کہ بھٹو شہید کے بعدگیارہ سال تک پاکستان کے عوام کوجگانے والی بے نظیرکس لحد میں سوئیہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ کسی خاندان کویہ محبتیں، عقیدت میسر نہیں آئیں۔پاکستان کا آئین متفقہ طور پر بننا ذوالفقار علی بھٹوکی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھٹو نے مشکل حالات میں پاکستان کی اس طرح قیادت کی جس سے لوگوں میں اعتماد پیدا ہوا۔ مسلم ممالک میں مسٹر بھٹوکی حیثیت ایک ترجمان کی سی ہوگئی۔یہ اہمیت جو مسٹر بھٹوکوسفارتی سرگرمیوں سے حاصل ہوئی تھی امریکی لابی کے ذہنوں میں کانٹا بن کر کھٹکتی تھی۔اس سے عرب ممالک اورچین کے درمیان بھی رابطہ پیداہورہاتھا۔عربوں میں اقتصادی بیداری پیداہورہی تھی۔ یہ بھٹو دورکی ابتداء تھی اور پھر 1977کے انتخابات اس میں آنے والے نتائج پراحتجاج اس پربھٹونے بڑی بے باکی سے امریکہ پر اس کھلم کھلا مداخلت کاالزام لگایا۔ بھٹو کا اقتدار ختم ہوگیا۔ مجھے یادہے کہ ستمبر 1965میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ولولہ انگیز تقریر نے بھٹوکوپاکستان کے عوام میں مقبولیت دی تھی۔وہ کس طرح پھانسی کے پھندے تک پہنچے یہ سب تاریخ ہے۔ بے نظیر بھٹوکی اپنی تابندہ داستان ہے۔ 27دسمبر کو انہوں نے جس جرات اوربے خوفی سے موت کوگلے لگایاوہ شہیدکادرجہ حاصل کرگئیں۔ ان کی شہادت کے بعدآصف علی زرداری نے پارٹی کوسنبھالا ۔اس کی قوت کو مجتمع کیا۔ پیپلز پارٹی مرکزاورسندھ میں اقتدارتک پہنچی۔ اب بلاول نے بتدریج سیاسی میدان میں ایک طویل سفرطے کر لیا ہے۔ آصف علی زرداری کی خواہش ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت کواکثریت ملے۔ اور وہ اپنے بیٹے بلاول کووزارت عظمیٰ کے عہدہ پرفائزدیکھ سکیں۔ حالات بتارہے ہیں کہ بھٹو اور شریف خاندان میں سیاسی وراثت ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہونے کاوقت آگیا ہے۔ جہاں بلاول بھٹو پاکستانی سیاست کے اسرارورموزجان چکے ہیں ۔ وقت کے تیورجوکچھ بتارہے ہیں، جوکچھ سمجھارہے ہیں سب کی سمجھ میں آرہاہے۔ عمران خان کی شخصیت کا ایک اہم پہلویہ ہے کہ وہ گزشتہ 50سال سے سب کو سکرین پر نظر آر ہے ہیں۔ کرکٹ کی دنیا میں ایک دیو مالائی کردارکے طورپرابھرنے والے عمران خان عام پاکستانیوں کے لیے ایک کرکٹنگ ہیرو تھے۔ پھر شوکت خانم ہسپتال اورنمل یونیورسٹی جیسے منصوبوں کی تکمیل نے انہیں نہ صرف ایک بڑے سوشل ریفارمزکے طورپرمتعارف کرایا بلکہ اس سے آگے بڑھ کرایک عام پاکستانی نے ان کی معاونت میں اپنا فقیدالمثال حصہ ڈالا۔ سیاست میں آکرعمران خان نے جو چیلنج قبول کیاوہ ان کے لیے خاصا دشوارگزار ثابت ہوا۔ وہ اپنی اناکے پہاڑ پرکھڑے ہو کر حالات کو دیکھنے کے عادی ہیں اس لیے وہ اس انا پرستی میں آگے بڑھتے چلے گئے انہیں شاید یہ اندازہ ہی نہیں ہو پایاکہ وہ اپنے لیے غلط راستے کا تعین کرکے اپنی پارٹی تڑوا بیٹھے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کی مقبولیت اپنے حریفوں سے زیادہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنی حماقتوں سے جیتا ہوا میچ ہارگئے۔ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام چاہیے ۔حالات میں تبدیلی کی ضرورت ہے حالات کو تبدیل کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذہنی رویے تبدیل کرنے ہوں گے۔ پاکستان کو تحریکوں کی جگہ تجویزوں کی ضرورت ہے ۔اگرسیاسی پارٹیاں اس بردباری ہوشمندی سے آگے نہیں بڑھیں گی تویہ ذمہ داری دوسرے ادارے نبھائیں گے ۔سیاسی پارٹیوں کواب نئے دورکے نئے تقاضوں کے لیے نئی سوچ اورنئی راہ اختیارکرنی ہوگی۔