عوام سے امید چھین لی گئی‘ کسی سے امید چھین لی جائے‘ اس کا جو حشر ہوتا ہے‘ وہ ہماری قوم کی موجودہ حالت سے مختلف نہیں‘ خاصی پرانی بات ہے‘ میں جب سکول کا طالبعلم تھا‘ ہماری کلاس میں ایک لڑکا بہت زیادہ شرارتیں کرتا تھا‘ ٹیچرز سے لیکر بچوں تک ہر ایک اس کی شرارتوں سے تنگ بھی تھے اور لطف اندوز بھی ہوتے تھے‘ اس لڑکے میں اچانک ایک بڑی تبدیلی آئی‘وہ اپنی ہر بات پر ضد کرتا اور جب اس کی ضد کو ماننے سے کوئی بھی کلاس فیلو یا ٹیچر انکار کرتا تو وہ جھگڑنے لگتا اور کچھ دیر بعد اس کی حالت ایسی ہوگئی کہ وہ اونچی اونچی چیخنے لگتا‘ جس کے بعد اس کے ایک دو قریبی دوستوں کے علاوہ سارے اس سے بچنے لگے‘ متعدد مرتبہ اس کا مختلف کلاس فیلوز کیساتھ جھگڑا بھی ہوا جبکہ ٹیچرز کی نظروں سے مسلسل وہ گرنے لگا لہذا اس کی ساکھ بری طرح مجروح ہوگئی‘ کوئی بھی طالب علم کوئی شرارت کرتا‘ اس کا ملبہ اس پر ڈال دیا جاتا‘ اس صورتحال نے اسے مزید پریشان اور مایوس کرنا شروع کردیا‘ ایک دو اس کے قریبی دوست بھی اس سے کنی کترانے لگے جبکہ اساتذہ گاہے بگاہے اس کے والدین کو فون کر کے اس کی ہر جائز و ناجائز شکایات کے انبار لگا دیتے‘ سکول میں اس کا چھوٹا بھائی بھی زیر تعلیم تھا‘ روزانہ کی بنیادوں پر مختلف ٹیچرز اس کے چھوٹے بھائی کو باتیں سناتے اور کہتے کہ گھر جا کر اپنے امی ابو کو بتانا کہ اس کے بڑے بھائی نے پورے سکول کا ماحول خراب کررکھا ہے‘ اس صورتحال میں وہ لڑکا خاموش رہنے لگا اور کچھ دنوں بعد اس نے سکول آنا چھوڑ دیا‘ میں نے ٹیلی فون پر اس سے بار ہا رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہوسکا‘ آخر ایک ماہ بعد وہ سکول میں دوبارہ آیا تو اس سے میں نے پوچھا کہ تم اتنے دن سکول کیوں نہیں آئے؟ پہلے پہل ہجکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے کے بعد اس نے بتایا کہ میرے والدین مجھے ایک ماہر نفسیات کے پاس لیجارہے تھے‘ میرا ٹریٹمنٹ چل رہا تھا اس لئے سکول سے غیر حاضر رہا‘ میرا یہ کلاس فیلو ایک کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتا تھا‘ اس کے والد کا کاروبار ڈاؤن جارہا تھا جس کا وہ ہر وقت اپنے گھر میں اظہار کرتے تھے جبکہ دوسری طرف سکول میں اساتذہ ہر وقت اس کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے اکثر طعنہ دیتے تھے کہ تم زندگی میں کچھ نہیں کرسکتے‘ تم اپنا مستقبل تو تباہ کررہے ہو‘ اپنے ساتھ دوسرے کلاس فیلو ز کا تو مستقبل تباہ نہ کرو اور انہیں پڑھنے دو‘ ان باتوں نے اس لڑکے سے امید چھین لی اور وہ کسی حد تک نفسیاتی الجھنوں اور مسائل کا شکار ہوگیا‘ کچھ عرصہ بعد اس نے سکول چھوڑ دیا اور میٹرک کے امتحان پرائیویٹ امیدوار کے طور پر دئیے اور فسٹ ڈویژن لے کر پاس ہوا‘ میری اس سے ملاقات اس کے سکول چھوڑنے کے کئی عرصہ بعد بھی جاری رہی‘ ایک روز اس نے بتایا کہ جس ڈاکٹر کے پاس میرے والدین مجھے لیکر گئے‘ اس نے کوئی دوائی تجویز نہیں کی لیکن بڑے گْر سے بتایا اور مشق کروائی کہ مستقبل کے بارے میں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھا کرو‘ خوابوں کو ذہن میں مختلف خاکے لا کر بنایا کرو‘ میرے اس دوست نے بتایا کہ اس نے یہی کیا اور وہ تعلیمی میدان میں بھی کامیاب ہوچکا ہے‘ ڈاکٹر نے اس کے والدین کو بتایا تھا کہ سکول اور گھر میں متواتر مستقبل کے حوالے سے مایوسی نے اس لڑکے سے مستقبل کی امید چھین لی تھی اور وہ اپنے وجود کے اندر نفسیاتی طور پر ایک ایسی جنگ اور الجھن کا شکار تھا‘ جس کا چاہتے نہ چاہتے اظہار اس کے ظاہری وجود سے ہورہا تھا‘ وطن عزیز پاکستان کے موجودہ حالت نے جہاں میری یادوں کے منوں ملبے تلے دفن اس واقعہ کی یاد تازہ کردی وہاں مجھے پاکستان کے موجودہ حالات میں ہر دوسرا پاکستانی اسی نفسیاتی کیفیت اور دباؤ سے نبرد آزما ہوتا نظر آتا ہے‘ اپوزیشن پوری دنیا میں ہمیشہ ہی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتی ہے‘ یہ ثابت کرنے کیلئے جمہوری انداز میں ہر وہ راستہ اختیار کرتی ہیں‘جس کے ذریعے حکومت کی غلطیوں کو اجاگر کرکے عوام کا جھکاؤ اپنی جانب موڑتی ہیں‘ پاکستان میں بھی جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے یہی کچھ ہوتا چلا آرہا ہے‘ البتہ اپوزیشن کے ساتھ جس قسم کا غیر جمہوری سلوک ہمارے ہاں ہوتا ہے اس کی مثال صرف کسی بنانا ری پبلک میں تو ملتی ہے لیکن کسی ترقی یافتہ جمہوریت میں نہیں ملتی‘ تاہم جب مادر وطن میں ایک حکومت کا تختہ جمہوریت کی آڑ میں غیر جمہوری طریقے سے غیر ملکی طاقتوں کی خواہش اور غیر سیاسی قوتوں کی طاقت سے گرائی گئی اور اس کے بعد قائم ہونیوالے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے ایک اتحاد کے نام پر حکومت اقتدار میں آگئی‘ انہوں نے 80 کے قریب وزارتیں بھی حاصل کرلیں مگر اس کے باوجود ملک کے معاشی و اقتصادی حالات حد سے زیادہ دگرگوں ہوگئے بلکہ 75 سالہ تاریخ میں سب سے بدترین ہوگئے‘ لاکھوں لوگ بحران کے باعث بیروزگاری کی چکی میں پسنے لگے‘ چھوٹے کاروبار بند ہونے لگے‘ ملیں‘ کارخانے تعطل کا شکار ہونے لگے‘ ملک میں مہنگائی نے عام آدمی سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی‘ ان حالات میں حکمران مسلسل ایک ہی بین بجاتے چلے جا رہے ہیں کہ ملک کا یہ سارا حشر نشر سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے کیا ہے‘ جب وزیر اعظم تسلیم کرتے ہیں کہ ملک میں تاریخ کی سب سے بلند ترین مہنگائی ہے‘ جب حکومتی وزیر اعتراف کرتے ہیں کہ ملک کی معیشت ڈیفالٹ ہو نہیں رہی‘ ہوچکی ہے‘ جب تمام حکومتی ذمہ داران بہتری کی نوید سنانے کی بجائے صرف سابقہ حکومت کو بدترین تنقید کا نشانہ بنا کر عوام کو ڈراتے ہیں تو بد قسمتی سے ملک میں عوام سے امید چھین لی گئی ہے‘ اب اس قوم کے ساتھ مزید کونسا ظلم کرنا باقی رہ گیا ہے‘ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتیں عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں‘ عوام پی ڈی ایم اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کی نا اہلی دیکھ کر حد سے زیادہ مایوس ہوچکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان انکی آخری امید بن چکے ہیں ۔