" برسبیل ِتذکرہ" کے عنوان تلے سابق وفاقی سیکرٹری حکومت پاکستان توقیر احمد فائق کی خود نوشت حال ہی منصہ ِشہود پر آئی ہے۔آپ بیتی یا سوانح عمری پڑھتے ہوئے مجھے دو لوگ ہمیشہ یاد آتے ہیں ایک مرزا اسداللہ خان یعنی غالب اور دوسرے ابوالمنصور تیمور یعنی تیمور گورگانی۔ غالب نے اپنی سرگزشت کے بارے میں کہا کہ زیست بسر کرنے کو تھوڑی راحت درکار ہے اور باقی حکمت اور سلطنت اور شاعری اور ساحری سب خرافات ہے۔ تیمور فاتح ِ عالم بھی تھا اور سلطنتوں کو تہ وبالا کرنے کا عاشق بھی۔ اس نے بارہ گروہوں سے اپنی سلطنت کو مضبوط بنایا اور ان بارہ گروہوں کو آسمان کے بارہ برجوں اور سال کے بارہ مہینوں کی طرح ان کو سلطنت کے بارہ ستون قرار دیا۔ غالب نے سلطنت ِشعر قائم کی جو صدیوں سے آباد ہے بلکہ اسے سلطنت ِدائم الاباد کہنا روا ہے۔گورگانی قرون ِ وسطی کے اواخر کا فاتح عالم ہے۔دونوں نے اپنے اپنے شعبہ ہائے حیات میں جوہر ِانسانی کا اظہار کیا۔دونوں نے زندگی کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر زندگی پر نظر ڈالی۔ زندگی کو ایک قدم پیچھے ہٹ کے دیکھنا انسان کو اپنے ظہور کے بہت بعد میں نصیب ہوا۔خاک کے پتلے نے ایک کروڑ اسی لاکھ سال پہلے سوچنا تو شروع کر دیا تھا مگر لکھنا اسے محض پانچ ہزار سال پہلے ہی نصیب ہوا۔ماقبل پانچ ہزار سال وہ بولی، اشارہے، گیت، آرٹ اور رقص سے ہی اپنی کتھا بیان کر پاتا تھا۔ نسل ِانسانی میکرو لیول پر بظاہر یکسانیت کی حامل نظر آتی ہے کہ نسل انسانی میں اضافہ ہی اس کی اول شناخت ہے، مگر مائیکرو لیول ہر انسان ایک الگ شخصیت کا حامل ہے جہاں ایک بوقلمونی ہے، بہار ہے اور رنگا رنگ تجربات ہیں۔ ایک آدمی خود ایک کائنات ہے۔ہر آدمی کے پاس اس کائنات کی ایک داستان ہے۔ذات کا اپنا بگ بینگ ہے جس میں مادہ اور غیر مادہ آپس میں ٹکراتے ہیں، تباہی پھیلاتے ہیں اور ایک نئی دنیا وجود میں آتی ہے۔آدمی کا معاملہ ایسا ہی ہے کہ زندگی اور اس کو کامیاب بنانے کی جنگ ہی ایک نئے تجربے اور نئی اور جدا کہانی پر منتج ہوتی ہے۔سینٹ اگسٹن سے توقیر احمد فائق تک اپنی داستان لکھنے اور لوگوں تک پہنچانے کا مطلب ہے کہ انسان کے پاس ضرور کچھ ایسا اہم تجربہ ہے جو اس کے نزدیک دوسروں تک پہنچانا لازم نہ بھی ہو تو دلچسپ ضرور ہو سکتا ہے۔ توقیر احمد فائق کے پاس بہت کچھ ایسا ہے جو اس ملک سے محبت کرنے والے کو جاننا ضروری ہو سکتا ہے۔ وہ یوں کہ وہ اس ملک کے دو لخت اور پاکستانیوں کے لخت لخت ہونے کے عینی شاہد ہیں۔اکہتر کے سقوط ِڈھاکہ کے وقت وہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔بر سبیل تذکرہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک وہ جس میں مشرقی پاکستان کے سقوط سے پہلے کی زندگی ہے۔اس میں ہم مغربی پاکستان کے لیڈروں اور قومی فیصلے کرنے والے جغادری شامل ہیں اور ان کی کوتاہیاں، بدعملیاں، سازشیں اور پاکستان کو متحد رکھ سکنے والے لوگوں کی بے توقیری ہے اور دوسرے حصے میں بقیہ پاکستان کو موجودہ حال تک پہنچانے والوں کا ذکر ہے۔اس آپ بیتی میں سیاست دانوں، آمروں اور بیورو کریسی کے " کارناموں" کا بیان ہے۔ ہم وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں جو یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ہماری حالیہ تاریخ شاہد ہے کہ قابل اور دیانت افسران کی بجائے حکومتی شعبوں میں اہم ترین تعیناتیاں سی ایس پی کلاس کے تھرڈ ریٹ افسران کو ملتی چلی گئیں۔بعد از ریٹائرمنٹ ایکسٹینشیں،سینیٹ کی ممبریاں، اداروں کی چئیرمینیاں اور وزارتیں تک ان کے لیے مخصوص ہوتی چلی گئیں اور دوسرے زمانہ اور اس کی نازک پن دیکھ کر بقول میر دونوں ہاتھوں سے دستار سنبھالتے رہ گئے۔مصنف نے اس سوانح میں کہیں پارسائی کا دعوی نہیں کیا مگر جس طرح سی ایس پی کلاس اپنا دین ایمان بیچ کر ملک و قوم کے سودے کرنے میں مصروف ہے جہاں اپنی ترقی کی قیمت پر اس غریب ملک کے رہنے والوں پر زندگی کا ددوازہ بند کرنے میں مشغول ہے اور جہاں وہ دو ٹکے کے لیڈروں کے ذاتی نوکر بن کر سروس کر رہے ہیں اور کسی بھی طریقے سے پیسہ بنانے کی مشین بنے ہوئے ہیں وہاں مصنف نے نہ صرف اپنا دامن بچایا ہے بلکہ فیض کے بقول ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ِندامت کی مثال بن کر دکھایا ہے۔ اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری تنہا پس ِزنداں کبھی رسوا سر ِبازار گرجے ہیں بہت شیخ سر ِگوشہ منبر کڑکے ہیں بہت اہل ِحَکم بر سر ِدربار ساری زندگی حکومتیں بنانے اور گرانے والوں بدنام زمانہ گروہوں میں زندگی کرنا مگر مچھ سے بیر کے مترادف تھا۔مصنف نے دو نمبری اور پیشہ ورانہ سازشوں سے الگ رہ کر اپنا راستہ بنایا۔سبکساران ِ ساحل اس شش و پنج اس ابتری کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے جو بیچ منجدھار پھنسے ہؤوں پر گزرتی ہے۔جس طرح سی ایس پی کلاس نے بے ضمیر ہو کر بے ضمیر، ان پڑھ اور ملک دشمن سیاسی اشرافیہ کا ساتھ دیا ہے اور جس جس طرح سے دو نمبر کا مال بنایا ہے بیرون ملک اثاثے بنائے ہیں، اس نے اس کلاس کی عزت اور بھرم کو سر ِعام نیلام کر دیا ہے۔ ملک ِپاکستان کے دانشوروں کو اس کتاب کا مطالعہ دعوت ِفکر دیتا ہے اور ان اسباب سے معاملہ کرتا ہے جو سقوطِ بغداد دوئم پر منتج ہوئے اور موجودہ سیاسی ابتری کا باعث بنے۔سرکاری اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں اس ریفرنس بک کا ہونا لازم ہے تا کہ طلبا اور نئی نسل اس سقوط ِڈھاکہ کے بارے میں مکمل آگاہ ہو سکیں۔