یہ علم اور جہالت کے درمیان فرق اور فاصلے کی کہانی ہے۔قران حکیم کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ علم والے اور بغیر علم والے برابر نہیں ہو سکتے۔ہمارا اور ان ملکوں کا جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کو مسخر کرنے میں مصروف ہیں بس یہی فرق ہے اور یہ اتنا ہی فرق ہے جتنا ایک شخص جو روشنی میں ہے اس میں اور اس شخص میں ہے جو اندھیرے میں ہے ،وہ آنکھیں کھول کھول کر بھی دیکھے تو اسے اندھیرا ہی دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ذہنوں اور ہمارے سوچ کے عمل پر اور پھر اس سوچ سے نکلنے والی چھوٹی بڑی پالیسیوں اور پروگراموں پر مطلق جہالت کے سائے ہیں۔ہماری حکومتوں کی زیادہ سے زیادہ اڑان آئی ایم ایف سے اگلی قسط لینے سعودی عرب سے امداد حاصل کرنے تک محدود رہتی ہے۔ہماری حکومتیں اپنی کامیابی پالیسیوں کا جشن مناتے ہوئے اعلان کرتی ہیں کہ قرض دینے والے عالمی اداروں سے مذاکرات کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں جو ہر سال سینکڑوں گریجوایٹ پیدا کر رہی ہیں ان میں ایک بھی سائنسدان نہیں ہوتا۔چین سے آنے والی نت نئی مصنوعات کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ ہر مسئلے کو دیکھ کر اس مسئلے کے حل پر مبنی ایک نئی پروڈکٹ بنا دیتے ہیں۔چین نے اپنے مسائل کے حل کے لیے ایسے ایسے جدید طریقے استعمال کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔چین میں زرعی زمین کل زمین کا 55 فیصد ہے اربنائزیشن کے عمل میں زرعی زمین میں کمی واقع ہونے کے عمل میں اور آبادی بڑھنے کی وجہ سے چین نے اپنی فوڈ سکیورٹی پر جدید طریقوں سے کام کیا اور ورٹیکل زراعت سے پھل سبزیاں اور اناج کھلے کھیتوں کی بجائے عمارتوں میں اگانے شروع کر دیے۔ہم نے یہاں پر شاپنگ پلازے بنا دیے اور دنیا کی بنائی ہوئی مصنوعات کو بیچنے پر لگ گئے جبکہ چین میں اس طرح کے بڑے بڑے پلازوں میں لمبائی کے رخ پھل اگائے جا رہے ہیں سبزیاں اگائی جا رہی ہیں۔یہ پھل اور سبزیاں بغیر مٹی کے جدید طریقوں کے مطابق درجہ حرارت کو کنٹرول کر کے اگائی جاتی ہیں جو انہوں نے کم ذرائع زمین اور زیادہ آبادی کے مسئلے کا بہترین حل تلاش کیا لیکن ہم ابھی تک پرانے وقتوں میں جی رہے ہیں۔ بچپن سے پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔پاکستان کازرعی رقبہ کل زمین کا 47 فیصد ہے۔اتنے ذرا ہی رقبے کے ساتھ پاکستان دنیا کے ان خوش قسمتی ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں زرعی رقبہ بہت زیادہ ہے۔مگر 47 فیصد زرعی رقبے کے ساتھ ہماری حالت یہ ہے کہ کبھی یہاں آٹے کا بحران ہے کبھی یہاں چینی کا بحران ہے۔لوگ یہاں آٹے اور چینی کے لیے قطاروں میں لگ کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔آج بھی سیلاب آجائے یا بارشیں معمول سے زیادہ ہو جائیں تو پیاز اور ٹماٹر ہمسایہ ملکوں سے لینے پڑتے ہیں۔ہماری پھل منڈیوں میں بھارت اور ایران کا کیلا فروخت ہوتا ہے۔ زراعت کے جو جدید طریقے چین میں استعمال کیے جا رہے ہیں کم سے کم جگہ پر ٹمپریچر کنٹرول کر کے گھروں کے اندر سبزیاں پھل اور ضرورت کا اناج اگایا جا رہا ہے یہ تمام جدید طریقے ہمارے ہاں کیوں نہیں استعمال میں لائے جا رہے۔کہنے کو ہمارے ملک میں ایشیا کی سب سے بڑی زرعی یونیورسٹی قائم ہے۔سوال یہ ہے کہ اس یونیورسٹی سے کتنے زرعی سائنسدان نکل رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کے غذائی مسائل کا حل پیش کیا ہے۔فوڈ سیکیورٹی اس وقت دنیا کے بڑے مسائل میں پہلے نمبر پر ہے لیکن ہمیں خبر نہیں کی پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کے لیے کن جدید خطوط پر کام ہو رہا ہے ہو بھی رہا ہے یا ہم سیاست کی افیون پی کر چین کی بانسری بجا رہے ہیں ان موضوعات پر آپ کبھی میڈیا میں سنجیدہ گفتگو نہیں سنیں گے۔ پچھلے دو دہانیوں میں ہم نے زیادہ ایم بی اے ہی پیدا کیے ہیں جن کی دنیا دوسرے ملکوں کی بنائی مصنوعات بیچنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ہمارے ہاں کبھی سائنس دان بننے کا رواج کیوں نہیں پڑا ۔کبھی کسی طالب علم نے یہ نہیں کہا کہ وہ کچھ نیا ایجاد کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ جس تعلیمی نظام سے نکلتے ہیں اس نظام میں کچھ نیا ایجاد کرنے اور کچھ نیا سوچ کر آگے بڑھنے کی تعلیم ہی نہیں دی جاتی۔ہمارے موضوعات صرف سیاست کے گرد گھومتے ہیں یہ وہ بحثیں ہیں جن کا حاصل حصول سوائے وقت ضائع کرنے کے کچھ بھی نہیں۔ہمارا گزارا قرض پہ چلتا ہے یا پھر ہم دنیا کی بنائی گئی مصنوعات کے سیلز مین ہیں۔ہمارے میڈیا کا 95 فیصد وقت ایسے ہی لاحاصل پروگراموں کو پیش کرنے میں گزرتا ہے لوگوں کو ایسی لاحاصل بحثیں ایک افیون کی طرح لگ چکی ہیں۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ان موضوعات پر ہمارے پرائم ٹائم میں کوئی پروگرام پیش نہیں کیا جاتا۔میں ایک مثال دیتی ہوں کہ ریکوڈک منصوبے پر پروگرام ہو رہے ہیں یا خبریں چل رہی ہیں کیا کسی ایک بھی چینل نے اس موضوع پر کوئی ایک سنجیدہ پروگرام بھی پیش کیا اس جدید دور میں سونے اور تانبے کا استعمال کہاں ہوتا ہے کیوں دنیا اس میں اتنی دلچسپی لے رہی ہے؟اس سے اگلے کالم میں اسی موضوع پر بات ہوگی کہ تانبا اور سونا کیوں اتنے قیمتی ہیں یہ کالم دراصل اسی کالم کی تمہید ہے۔جب میں نے اس حوالے سے ریسرچ کی اورجو حقائق سامنے آئے تو میں خود حیران رہ گئی۔مجھے احساس ہوا کہ ہم لوگ جو اخباروں میں کالم لکھتے ہیں ہم بھی وہی گھسے پٹے موضوعات کی جگالی کرنے میں مصروف ہیں۔اخبارات سے لے کر اور ٹی وی چینلوں تک اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں سے لے کر اور یوٹیوب چینلوں تک جو کچھ دن رات ہمارے نظر سے گزرتا ہے اس سے ہماری سوچ رکے ہوئے پانی کے جوہڑ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ارادہ ہے کہ آئندہ آنے والے کالموں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی نئے موضوعات کا احاطہ کریں گے۔ تاکہ پڑھنے والے کوئی نئی بات دامن میں سمیٹ سکیں یا اگر پڑھنے والے بھی نیا کچھ نہیں سیکھنا چاہتے تو کم از کم میں تو کچھ نیا سیکھوں پرانے موضوع، پرانی باتوں سے خود میرے دماغ میں کائی جمنے لگی ہے۔