گندم کی فصل تیار ہے، موسمی حالات کے علاوہ کسانوں کو سب سے زیادہ نقصان حکومتی پالیسی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی گندم کی قیمت 3900 روپے من مقرر کی گئی ہے مگر حکومتی نرخ سے کم گندم 30 سے 35 سو روپے من فروخت ہو رہی ہے۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کی فلاح و بہبود اور معاشی استحکام کیلئے گندم کی سپورٹ پرائس مقرر کی گئی ہے، یہ کیسی سپورٹ ہے کہ یہی گندم تین ساڑھے تین ہزار روپے من خرید کرکے چھ ہزار روپے من آٹا فروخت ہوتا ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ گزشتہ سال بھی یہی قیمت تھی، اس سال پیداواری لاگت دگنا ہونے کے باوجود ریٹ وہی ہے اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ کہ حکومت کھاد کی جو قیمت مقرر کرتی ہے وہ ڈبل قیمت پر فروخت ہوتی ہے جبکہ گندم کی جو قیمت مقرر کی جاتی ہے وہ اُس سے کم قیمت پر فروخت ہوتی ہے، یہ ایک ظلم اور استحصال کا نظام ہے جو کہ حکومتی مشینری کی آشیر باد سے آگے بڑھتا ہے۔ یوں تو ملکی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے ہے مگر جب ریڑھ کی ہڈی کو توڑ دیا جائے گا تو معیشت کا جسم مفلوج نہ ہو تو کیا ہو؟ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کاشتکاروں کی بھلائی کے دعوے تو بہت کئے ہیں مگر عملی طور پر صورتحال اس کے برعکس ہے، ابھی تک کسانوں کو کوئی ریلیف نہیں ملا، دیہات میں رہنے والے کسان بدحالی کا شکار ہیں، گندم کے معاملے میں کاشتکاروں کا بہت نقصان ہو چکا ہے، یہ کہہ کر غریب کسانوں سے گندم سستے داموں ہتھیا لی جاتی ہے کہ روٹی کی قیمت کم رہے مگر گندم کی خرید کے دوسرے ماہ آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں اگر گندم کی قیمت کم رکھنی ہے تو پیداواری لاگت کو کم کرنا ہو گا، اس کیلئے ضروری ہے کہ کھاد، پیسٹی سائیڈ، بیج اور بجلی کی قیمتیں کم کرائی جائیں۔کسانوں کو بلا سود قرضے دیئے جائیں، کہنے کو تو یہ سب کچھ کیا جاتا ہے مگر اس کا فائدہ بھی مافیاز اٹھاتے ہیں اور کسانوں کو لولی پاپ کے سوا کچھ نہیں ملتا، یہ محض اتفاق نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کامقصد یہی ہے کہ غریب کسانوں کا استحصال کرو، یہ سرمایہ دارانہ نظام کا اعجاز ہے کہ گندم سے تیار کردہ دو چھٹانک کے بسکٹ کا پیکٹ پچاس روپے میں بکتا ہے جبکہ کاشتکار کو دو چھٹانک کی قیمت دو روپے بھی نہیں ملتی، دو پائو کپاس سے تیار ہونے والا کپڑے کا سوٹ سرمایہ دار پانچ ہزار روپے تک فروخت کرتا ہے جبکہ کاشتکار کو دو پائو کپاس کی قیمت چند روپے ملتے ہیں۔ غریب کسان سے گندم آج بھی تین ہزار روپے میں خریدی جا رہی ہے جبکہ آٹا آج بھی پانچ سے چھ ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہے، اندھیر نگری ملاحظہ کریں کہ پچھلے سال والی گندم جو کہ باسی ہو چکی ہے کا نرخ پانچ سے چھ ہزار روپے بتایا جاتا ہے اور جو تازہ گندم ہے اُس کی قیمت تین سے چار ہزار روپے کے درمیان ہے۔ یہ استحصال ، ظلم اور زیادتی کا نظام ہے جسے ختم کئے بغیر نہ معیشت سنبھل سکتی ہے نہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ جب بھی (ن) لیگ کا دور آتا ہے زرعی معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔ نوازشریف دور میں لاہور دیگر بڑے شہروں میں کھربوں کے منصوبے شروع کر دیئے جاتے ہیں اور دیہاتوں تک کچھ نہیں پہنچ پاتا، دوسرا یہ کہ غریب کسانوں کو ملنے والی سہولتیں چھین کر سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو دے دی جاتی ہیں۔ دیہاتوں میں آکر کوئی غریب کسانوں کی بدحالی کو دیکھئے کہ اُن کے خرچے بھی پورے نہیں ہو رہے، یہ صرف گندم کا معاملہ نہیں، آگے کپاس کی فصل آرہی ہے ، کپاس کی بوائی سے اُس کی چنائی تک جن عذابوں سے کسان گزرے گا مگر آگے کپاس کا ریٹ بھی نہیں ملے گا جس طرح آج کاشتکار گندم کے کھیتوں کو احتجاجاً آگ لگا رہے ہیں، اسی طرح کپاس کے ڈھیروں کو آگ لگانے کے واقعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ حکومتی آشیر باد سے مڈل مینوں کا کردار بہت بھیانک ہے، یہی لوگ ہیں جو سرکاری ریٹ پر خریداری پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتے، اگر کاشتکار محکمہ خوراک کے ڈپوئوں پر جاتے ہیں تو وہاں ذلت کے سواء کچھ نہیں ملتا اور جب مڈل مین بیوپاری گندم خریدتے ہیں تو وہ غریبوں کی چمڑی ادھیڑ لیتے ہیں، کہنے کو حکومت نے صوبے میں چار سو کے لگ بھگ گندم خریداری کے مراکز بنائے ہیں مگر ان مراکز سے استفادہ کسان کم اور افسروں کے ایجنٹ زیادہ اٹھاتے ہیں۔گندم کی فروخت کیلئے جو شرائط مقرر کی گئی ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ باردانہ کیلئے موبائل ایپ کا بھی اجراء کیا گیا ہے مگر جس کسان کو موبائل نمبر ملانا نہیں آتا وہ کس طرح اس سے استفادہ کرے گا؟ شرائط میں کہا گیا ہے کہ اس پریوکیورمنٹ اسکیم کے لیے صرف 6 ایکڑ زمین تک کے کاشتکار ہی اہل ہوں گے، 100 کلو گرام کے 6 جیوٹ تھیلے یا 50 کلو باردانہ کے 12 پی پی تھیلے ہی فی ایکڑ جاری کئے جائیں گے۔سوال یہ ہے کہ اگر کسی کے سات ایکڑ ہیں تو وہ کہاں جائے، مزید یہ کہ باردانہ کے معاملہ میں حکومتی پریشانی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وسیب میں گندم کی پیداوار اتنی زیادہ ہے کہ حکومت باردانہ مہیا کرنے میں ناکام ہے، ظلم تو یہ ہے کہ وسیب میں گندم کے انبار لگے ہیں لیکن عام آدمی دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہے، حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 19 اپریل سے پہلے باردانہ مہیا ہو جائے گا مگر ابھی تک باردانہ مہیا نہیں ہوا، وسیب میں گندم کا سیزن شروع ہوتا ہے تو محکمہ خوراک کے گوداموں کے سامنے میلوں تک گندم سے بھری ٹرالیوں کی لائنیں ہوتی ہیں، کئی کئی دن تک باری نہیں آتی، یہ سب وسیب میں ہونے والی رزق کی فراوانی کی چھوٹی چھوٹی جھلکیاں ہیں، اگر حقیقی معنوں میں وسیب کے کاشتکاروں کو سہولتیں دی جائیں، کسان دوست پالیسیاں بنائی جائیں، لوٹ مار کا نظام ختم کیا جائے تو وسیب نہ صرف پاکستان بلکہ کئی ملکوں کی غذائی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔