اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تعلیم کے فروغ کے لئے اہم اقدامات کر رہی ہے خصوصاً موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے آنے کے بعد یونیورسٹی طلباء کی تعداد پندرہ ہزار سے پینسٹھ ہزار تک جا پہنچی ہے، شعبہ جات کی تعداد کے ساتھ سٹاف کی تعداد بھی بہت بڑھ چکی ہے اس سے مقامی لوگوں کو روزگار بھی ملا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی نے رحیم یار خان اور بہاولنگر کیمپس کے بعد احمد پور شرقیہ اور لیاقت پور میں بھی کیمپس قائم کئے ہیں، اسی طرح حاصل پور میں بھی کیمپس کے قیام کی پلاننگ بن چکی ہے، ایک عرصے سے میں اپنے آبائی شہر خان پور میں اسلامیہ یونیورسٹی کیمپس کے قیام کے لئے کوشش کر رہا ہوں ، اس سلسلے میں وائس چانسلر کے علاوہ گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ خان پور کے مقامی نمائندوں نے اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کو کیڈٹ کالج کی جگہ کا وزٹ کرایا ہے اور کہا کہ جب تک کیڈٹ کالج کی کلاسز کا اجراء نہیں ہوتا وقتی طور پر آپ اپنا کیمپس اس جگہ بنا لیں، وائس چانسلر نے کہا کہ یونیورسٹی اس بارے سوچ بچار کرے گی، تاہم وائس چانسلر نے یہ بھی کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنی طرف سے کیڈٹ کالج کی جگہ کیمپس بنانے کا نہیں کہابلکہ مقامی ایم این ے کی خواہش کہ ہے کہ اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر بلڈنگ آباد ہو جائے۔ درست بات یہی ہے کہ خان پور کے عوام کو کیڈٹ کالج بھی چاہئے اور اسلامیہ یونیورسٹی کا کیمپس بھی ۔ خان پور کیڈٹ کالج میںفوری کلاسز کے اجراء کے لئے ہم عرصہ دراز سے لکھتے آ رہے ہیں ، کیڈٹ کالج ضرور بننا چاہئے مگر اسلامیہ یونیورسٹی کے کیمپس کے قیام کی مخالفت کسی بھی لحاظ سے درست نہیں کہ وہ بھی تحصیل خان پور کے طالب علموںکی اشد ضرورت ہے۔ خان پور کیڈٹ کالج کا منصوبہ بہت پرانا ہے مگر بلڈنگ بن جانے کے باوجود بھی یہ منصوبہ مسلسل التوا کا شکار ہے۔ خان پور کیڈٹ کالج کی کلاسوں کے سلسلے میں میں ذاتی طور پر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ، چیف سیکرٹری پنجاب کے علاوہ کمشنر بہاولپور آصف اقبال چوہدری، ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان جمیل احمد جمیل ، کمشنر بہاولپور راجہ جہانگیر انور اور ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد سے ملا ، بعض افسروں نے یہ بھی بتایا کہ کیڈٹ کالج کی کلاسز کا اجراء کیوں نہیں ہو رہا، خان پور کیڈٹ کالج کا پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان ہے، ڈپٹی کمشنر علی شہزاد نے بتایا کہ میرے پاس چوہدری آصف اقبال نے آپ کے لئے نہایت ہی اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے اور مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ کو کیڈٹ کالج کی پیشرفت کے بارے میں آگاہ کروں، ان کا کہنا تھا کہ میں حتی المقدور کوشش کر رہا ہوں مگر اوپر سے فنڈز نہ آئیں تو آدمی بے بس ہو جاتا ہے۔ خان پور کیڈٹ کالج کے پس منظر کے حوالے سے یہ بتانا ضروری ہے کہ خان پور کیڈٹ کالج کا منصوبہ سابق ایم این اے میاں عبدالستار کی درخواست پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دیا تھا۔محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء میں پیپلز پارٹی بر سراقتدار آئی تو سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گئے، خان پور سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے میاںعبدالستار نے مجھے کہا کہ دھریجہ صاحب وزیر اعظم سے ملاقات طے ہے اور انہوںنے کہا ہے کہ اپنے شہر کیلئے کوئی ایک منصوبہ مانگیںتو اس وقت ہم نے ایم این اے میاںعبدالستار کو کہا کہ آپ کیڈٹ کالج کا منصوبہ لیں چنانچہ میاں عبدالستار صاحب اور ایم پی اے میاںاسلم نے یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے دوران کیڈٹ کالج کا منصوبہ مانگا اور وزیر اعظم نے فوری طور پر اسے منظور کیا اور بعد ازاں وفاقی حکومت کی طرف سے دس کروڑ روپے کی گرانٹ بھی جاری کرا دی گئی ، اس وقت پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی اتحادی حکومت تھی، صوبے میںشہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔ شہباز شریف نے ابتدائی طور پر منصوبے پر کام شروع کرا دیا مگر پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کا اتحاد ختم ہو گیا، اسی بناء پر منصوبہ مسلسل کھٹائی کا شکار ہوتا رہا کہ اس کی تکمیل مرکز نے نہیںبلکہ صوبے نے کرانی تھی۔ (ن) لیگ نے یہ کیاکہ جو منصوبہ ایک سال میںمکمل ہونا تھا اُسے دس سال تک لٹکائے رکھا، دوسرے یہ کہ کیڈٹ کالج جس کیڈٹ ساز ادارے کے حوالے کرنا تھا ان سے بات ہی نہ کی۔ کیڈٹ کالج خان پور کی بلڈنگ تو بن گئی ہے مگر کوئی کیڈٹ سازادارہ اسے ہینڈ اوور کرنے کو تیار نہ ہوا ، بعد میںکوشش کی گئی کہ اسے محکمہ تعلیم کے ہینڈ اوور کر دیا جائے مگر مسئلہ کیڈٹ کی ڈگری کا ہے۔ اب خان پور کیڈٹ کالج کو ایک گورکھ دھندہ بنا دیا گیا ہے، اس دوران مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے شیخ فیاض الدین نے یہ کوشش کی کہ عارضی طور پر کیڈٹ کالج کی عمارت اسلامیہ یونیورسٹی کے حوالے کر کے خان پور میںیونیورسٹی کیمپس بنا دیا جائے، ہمارا مشورہ بھی یہی ہے کہ یونیورسٹی کا کیمپس بھی ملنا چاہئے، کیڈٹ کالج بھی ملنا چاہئے۔ جیسا کہ میںنے پہلے ذکر کیا کہ کیڈٹ کالج کی زمین کیڈٹ کالج کے نام ہے، بلڈنگ بھی 5 سال سے تیار ہے مگر اسے کوئی کیڈٹ ساز ادارہ ہینڈ اوور کرنے کو تیار نہیں، جس کی وجہ سے کیڈٹ کالج کے دروازے دیمک چاٹ گئی اور اندر پڑے کمپیوٹر اور کروڑوںروپے مالیت کی لیبارٹری کا سامان ناکارہ ہو رہا ہے۔ سابق صدر فاروق لغاری پیپلز پارٹی میںتھے تو انہوںنے ڈیرہ غازی خان کے لئے کیڈٹ کالج منظور کیا، سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو انہوںنے خان پور کے ساتھ ملتان کیلئے بھی کیڈٹ کالج منظور کیا، ملتان میںکیڈٹ کالج کا رقبہ آج بھی ویران پڑا ہے۔ یہ بد قسمتی ہے کہ وسیب کے ان تینوںکیڈٹ کالجز میںسے کسی کی بھی تکمیل نہ ہو سکی۔ جیسے تیسے کر کے خان پور کیڈٹ کالج کی بلڈنگ تیار ہوئی تو وہ بھی پانچ سالوںسے دیمک کی خوراک بنی ہوئی ہے۔ التماس ہے کہ خان پور کیڈٹ کالج کی کلاسیں شروع کرائی جائیں کہ پورے سرائیکی وسیب میں ایک بھی کیڈٹ کالج نہیں ، یہ اس بناء پر بھی ضروری ہے کہ سابق ریاست بہاولپور کی قیام پاکستان کیلئے عظیم خدمات ہیں ، ریاست بہاولپور نے اپنے تمام وسائل کے ساتھ ساتھ بہاولپور رجمنٹ بھی پاک فوج کے حوالے کی ، وسیب میں کیڈٹ ساز ادارے ہونگے تو وسیب کے لوگ بھی پاک فوج میں کمیشن حاصل کر کے ملک و قوم کی خدمات سر انجام دے سکیں گے۔