عافیہ صدیقی جیسی ہزاروں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و وجود کو امریکی سامراج نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر پاؤں تلے روند دیا ہے۔امریکی سامراج کو مسلمانوں سے ڈر نہیں ہے کیونکہ دورِ حاضر کے مسلمان کا وہ مْسلم کردار باقی ہی نہیں رہا جس کردار کے بل بوتے پر ہم نے ہزاروں سال دنیا پہ حکمرانی کی۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپی ممالک کو قرآن اور اِسلامی تہذیب سے خوف ہے۔ مغرب نے اسلامو فوبیا کو چار عناصر میں تقسیم کررکھا ہے۔جن میں قرآن، ناموسِ رسالت ماب ﷺ، عقیدہ ِ ختم ِ نبوت ﷺ اور شعائر ِاسلام (مسجد، مدرستہ، پردہ، ڈاڑھی وغیرہ)شامل ہیں۔ موجودہ دور کے مسلمانوں کے سامنے قرآن ِ پاک کی بے حرمتی کا ارتکاب کرنے کے بعد مغربی تہذیب کے سرخیل حالات کا عرق ریزی سے معائنہ کرتے ہیں کہ دنیا کے کس کس کونے اور کون سے ملک کی جانب سے ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد ناموسِ رسالت ماب ﷺکی شانِ اقدس میں گستاخی کی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کی غیرت کا اندازہ لگایا جاسکے۔ مغربی تہذیب کے کارندوں نے عقیدہ ِ ختم ِ نبوت ﷺ پہ چوٹ لگانے کے لئے مسلم ممالک کے اندر ہی کئی گروہ ایسے ترتیب دے رکھے ہیں جو وقتاًفوقتاً ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو مجروح کرکے مسلمانوں کی غیر ت و حمیت کو للکا ر کر جائزہ لیا جاتا ہے کہ مسلمان کس قدر سخت ردِ عمل دیتے ہیں۔ یہی حال دیگر اسلامی شعائر کا ہے۔ حیران کن طور پر مسلمان ممالک اِس طرح کے جرائم پر معمولی سا ردِ عمل دیتے ہیں اور بعد ازاں خاموش ہوجاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے ستر فیصد قدرتی وسائل پونے دو ارب مسلمانوں پر مشتمل ستاون مسلم ممالک کے پاس ہیں۔تمام اسلامی ممالک کی کل ملا کر اَسی لاکھ افواج ہیں، تمام مسلم ممالک کی زبردست جیوسٹریٹیجکل لوکیشن ہیں۔ مسلمان ممالک کے وجود کے بنا اِس دنیا کا قائم رہنا ناممکنات میں سے ہے۔اس کے باوجود ایک شخص سوئیڈن کی عدالت سے باقائدہ اجازت لے کر حج کے موقع پر ایک مسجد کے سامنے قرآنِ مجید کی بے حْرمتی کرتا ہے۔ اْس کی وجہ شاید وہی ہے جو سینیٹر مشتاق احمد نے ایوانِ بالا کے فلور پہ کہا کہ اْو آئی سی دراصل انجمن ِ غلامانِ امریکہ بن چکی ہے۔ یہ تنظیم دراصل امریکی غلامی کا کلب ہے کیونکہ اْو آئی سی کے ہنگامی اجلاس کا کسی کو کوئی خوف نہیں، کسی کو کوئی ڈر نہیں۔ یہی سبب ہے کہ امریکی سامراج ہر آئے دن قرآن ِ مجید کی بے حرمتی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ خود پاکستانی حکومت نے سویڈن کے سفیر کو نکالنے کی جراء ت نہیں کی۔ سینیٹر مشتاق احمد کی تجویز انتہائی مناسب ہے کہ تمام مسلم ممالک کو فوری اقوامِ متحدہ کا ہنگامی اجلاس بلانا چاہئے اور اقوامِ متحدہ میں یہ قانون پاس کرنا چاہئے کہ آئندہ قرآن ِ مجید، ناموس ِ رسالت ماب ﷺ اور دیگر شعائر اسلام اور تمام دیگر مذاہب کی حرمت کا خیال رکھا جائے گا۔یہ کام پاکستان کی قرار داد پہ پایہ ِ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ قرارداد کی امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک نے بھرپور مذمت کرتے ہوئے سویڈن کے شہری کے مذموم عمل کو آزادیِ اظہار قرار دیا ہے۔ سینیٹر کا کہنا ہے کہ اْو آئی سی بھی یہی قانون سازی کرے۔ آئے روز ہنگامی اجلاسوں کا ڈرامہ رچاکر اْمت ِ مسلمہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بجائے صحیح معنوں میں اِس تنظیم کو چاہئے کہ اقوامِ متحدہ پر زور دے کہ ایسا قانون فوراً پاس کیا جائے۔ اِس قانون کے بعد اگر کسی ملک میں اسلام اور دیگر مذاہب کی حرْمت پامال کی جاتی ہے تو اْس ملک سے تمام ممالک نہ صرف تجارتی، معاشی اور سماجی بائیکاٹ کریں گے بلکہ مرتکب افراد کو قرارِ واقعی سزادی جائے گی۔ حیرانی ہے کہ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کیوں خاموش ہے؟ ہمیں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو جگانا چاہئے۔ سینیٹر صاحب کہ یہ بات صد فی صد درست ہے کہ جب تک قراردادوں کے پیچھے پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک عملی اقدامات نہیں اْٹھائیں گے یہ ساری مذمتی قراردادیں کاغذ کا ٹکڑا ہیں۔ اِن عملی اقدامات میں تمام قسم کے سفارتی تعلقات، تجارتی معاہدے اور سماجی تعلقات منسوخ کردیے جائیں۔ سویڈن کے شہری کے مذموم عمل پر دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یومِ تقدیس ِ قرآن منایا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یومِ تقدیس ِ قرآن منانے کا مقصد محض ایک دن قرآن ِ مجید پر سیمینار منعقد کرا کے خاموش ہوجانے کا نام نہیں۔ بلکہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہمیں اْس ظالم کا عملی اقدامات کے ذریعے ہاتھ روکنا ہوگا جو فلسطین میں معصوم مسلمانوں کو ذبح کررہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کو اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اٹھانا ہونگے۔ ہمیں اپنے ملک سے سود کا خاتمہ کرنا ہوگا، قرآن کے نظام کو نافذ کرنا ہی صحیح تقدیس ِ قرآن ہوگا۔اگر ہم یہ کام نہیں کرسکتے تو بلاشبہ نہ تو ہمارا قرآن محفوظ ہوگا اور نہ ہی اْمت ِ مسلمہ محفوظ ہوگی۔ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے بھی کچھ ملے جلے الفاظ میں مغربی تہذیب کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی اور یورپی ممالک ہم مسلمانوں کی غیرت پہ ٹِیسٹر لگاتے ہیں تاکہ جان سکیں کہ ہمارے اندر اور کتنا غیرت رہ گئی ہے۔ مغربی تہذیب نے ہر تصور کو اپنے انداز میں ڈھال رکھا ہے۔ مثلاََ ہولوکاسٹ کو جھوٹ کہنا بھی قابلِ گرفت جرم ہے۔ آئے روز فرانس میں ناموسِ رسالت ماب ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے مظاہرین کی پشت پناہی کرنے والے فرانسیسی صدر کے پوسٹر جلانا بھی جرم ہے۔ ملکہ ِ برطانیہ یا برطانوی خاندان کے کسی فرد کا خاکہ بنانا بھی جرم ہے۔ اب تو صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر دمودر داس مودی کو برا بھلا کہنا بھی جرم قرار دیا جاچکا ہے اور کانگریسی لیڈر راہول گاندھی کو عدالت نے دو سال جیل کی سزا سنائی ہے۔ یعنی مذکورہ تصورات پہ بات کرنا آزادیِ اظہار نہیں بلکہ جرم ہے مگر حیران کن طورمغرب کے نزدیک پرقرآن مجید، ناموسِ رسالت ماب ﷺ، عقیدہ ختم ِ نبوتﷺ اور اسلامی شائر کا مذاق اڑا کر پونے دو ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح کرناجرم نہیں بلکہ یہ ’آزادیِ اظہار‘ ہے۔ مسلم ممالک کو اِس پر پوری سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب کو ہڑپنے کے درپے ہوچکی ہے اور مسلمانوں سے اْن کی شناخت چھیننے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہے۔