نواز شریف کی وطن واپسی کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا ، اگرچہ حسین نواز کے دفتر میں روزانہ میٹنگز ہوتی ہیں ، پاکستان سے جانے والے سیاسی رہنما ئوں کا پسندیدہ موضوع بھی یہی ہوتاہے۔ کوئی کہتا ہے میاں صاحب آپ کو فوراََ َواپس آنا چاہیے،جب تک آپ نہیں جائیں گے مسائل حل نہیں ہوں گے، دوسروں کی رائے یہ ہوتی ہے کہ میاں صاحب جب تک گرفتاری کا امکان سوفیصد ختم نہیں ہو جاتا آپ کو واپس نہیں جانا چاہیے۔ دونوں ہی طرح کی آرا سن کر میاں صاحب خاموش ہو جاتے ہیں ۔ ذرائع کہتے ہیں پنجاب میں ن لیگ کی حکومت بنتے ہی نواز شریف نے واپسی کے لیے سامان باندھنا شروع کر دیا تھا ،منصوبہ یہ تھا کہ میاں صاحب لاہور ائیر پورٹ پر پوری شان و شوکت کے ساتھ اتریں گے، ان کا فقید المثال استقبال ہو گا، قافلے کی شکل میں انہیں جاتی امرالے جایا جائے گا۔ اسی دوران عدالت سے ریلیف لینے کے لیے درخواستیں دائر ہوںگی۔ پراسیکیوشن ڈھیلی ڈھالی صورت اختیار کر لے گی اور یوں میاں صاحب ’’ڈاکٹروں ‘‘ کی اجازت سے وطن واپس آ جائیں گے۔مزید احتیاط کی خاطر یہ منصوبہ بھی بنایا گیا تھا کہ پہلے مرحلے میں اسحاق ڈار کو بھیجا جائے گااور کوئی خطرہ نہ پا کر میاں نواز شریف کو واپسی کا اشارہ دے دیا جائے گا۔ منصوبے کے مطابق اسحاق ڈار کو جولائی میں پاکستان پہنچنا تھا اور پھر چند ہفتوں میں نواز شریف کو واپس آنا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ حمزہ شہباز نے چار جولائی کو عدالت میں کھڑے ہو کر بڑے طمطراق سے کہا وزیر اعلی کا انتخاب 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے بعد بھی کرا لیا جائے تو انہیں اعتراض نہیں۔ پرویز الٰہی نے میاں محمود الرشید کے ہمراہ کمزور گیند پر فورا چھکا لگایا اور حامی بھر لی۔ سترہ جولائی کے انتخابات نے پانسا پلٹ دیا ،حمزہ شہباز وزیر اعلی نہ رہے اور ساتھ ہی میاں نواز شریف کی واپسی کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ اب ذرائع کے مطابق نواز شریف اپنے پاکستان واپس نہ آنے کا ذمہ دار حمزہ شہباز کو قرار دیتے پائے جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حمزہ اپنی وزارت اعلی کی صحیح طور پر حفاظت کرتے تو ان کے لیے واپسی کی راہ ہموار ہو چکی ہوتی ۔ کچھ دن پہلے نواز شریف کی طرف سے حمزہ شہباز کو وضاحت کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ اپنی وزارت اعلی کو برقرار رکھنے میں ناکام کیوں رہے؟ ان سے یہ سوال بھی ہوا تھا کہ وزارت اعلی کے دوران انہوں نے مریم نواز سے ہم آہنگی پیدا کیوں نہ کی اور عدم تعاون کا رویہ کیوں اختیار کیا ، ان سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ مریم نواز کی طرف سے دیے گئے تمام ناموں کو کابینہ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حمزہ شہباز نے نواز شریف کو ان سوالوں کا وہی جواب دیا جو وہ لندن جانے سے پہلے تحریری طور پر دے چکے تھے۔ حمزہ شہباز نے 17 جولائی کو انتخابات ہارنے کی تمام ذمہ داری مرکزی قیادت کے فیصلوں پر ڈالتے ہوئے تین وجوہات بیان کیں۔ انہوں نے کہا اپنے کارکنوں کو ٹکٹ دینے کی بجائے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینا الیکشن ہارنے کی سب سے بڑی وجہ تھی، انہوں نے اپنی وضاحت میں کہا کہ مشکل فیصلے کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے اور مہنگائی کرنے کی وجہ سے بھی وہ الیکشن ہار گئے۔ الیکشن ہارنے کی تیسری وجہ انہوں نے مریم نواز کو قرار دیا۔ حمزہ کا خیال تھا کہ منحرف اراکین کے لیے مہم چلانے میں مریم کی ہچکچاہٹ کے باعث مہم دیر سے شروع ہوئی جسے بعد میں بھی منظم نہیں کیا جا سکا۔ حمزہ شہباز کی یہ وضاحت کس حد تک قبول ہوئی یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن نواز شریف آج بھی اپنے پاکستان واپس نہ آنے کا ذمہ دار حمزہ کو ہی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر حمزہ اپنی وزارت اعلیٰ کی حفاظت کر لیتے تو آج وہ پاکستان میں ہوتے ۔ حمزہ شہبازاپنی شکست کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ایک نکتہ نظر انداز کر گئے۔25 مئی کو عوام پر کیے جانے والے ظلم وستم،پرامن لوگوں پر آنسو گیس شیلزکی فائرنگ، گھروں پہ چھاپے اور تشدد نے عوام کو شدید ہیجان اور غصے میں مبتلا کر دیا تھا۔ لوگ اس ریاستی جبر کے خلاف کچھ اور تو نہ کر سکے ،سارا غصہ انہوں نے 17جولائی کو بیلٹ پیپر پر نکال دیا ۔ غصے میں وہ لوگ بھی گھر سے نکلے جو عام طور پر ووٹ ڈالنے نہیں آتے ۔اب چونکہ اس بنیادی نکتے کونظر انداز کر دیا گیا لہذا اب بھی جارحیت کی یہی حکمت عملی دہرائی جا رہی ہے جس کا نقصان انہیں اگلے ضمنی انتخابات میں ہو سکتا ہے ۔ آ ئندہ چند دن میں ن لیگ کو ایک اور ضمنی انتخاب کا سامنا ہے۔قومی اسمبلی کے نو حلقوں میں حکومتی اتحاد عمران خان کا مقابلہ کرنے جا رہا ہے۔ اس انتخابی معرکے سے پہلے حکومت نے شہباز گل پر تشدد کر کے تحریک انصاف کے لیے عوام میں ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیے ہیں۔ عوام شہباز گل پر تشدد کرنے والوں پر جوابی تشدد تو نہیں کر سکتے مگر اپنا سارا غصہ بیلیٹ پیپز پر نکال دیں گے۔فیصل آباد سے عمران خان کے کاغذات نامزدگی مسترد کے بھی فیصل آباد کے ووٹرز کو مشتعل کیا گیا ہے۔انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں باہر نکلیں اور فرخ حبیب کے لیے ووٹ کریں۔ ن لیگ کی جارحیت کی حکمت عملی خود انہیں نقصان اورتحریک انصاف کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ شہباز گل اپنے نامناسب بیان کے باوجود لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں اور آج شہباز گل کا بیان موضوع بحث نہیں بلکہ ان پر ہونے والا مبینہ تشدد موضوع بحث ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ایسا کر کے حکومت نے کیا فائدہ اٹھایا۔ لہذا اس وقت حکومت کو ایک بہتر مشیر کی ضرورت ہے جواس کے بے شمار مسائل میں کمی کر سکے۔