وہ لمحے جب لالہ و گل کے لبوںپر مسکراہٹ بکھری تھی، وہ دن جب،صحرائوں میں شبنم کے موتی ڈھلکے تھے اور خوشبوئوں نے انگڑائی لی تھی۔ وہ دلنشیں ساعتیں جب اﷲ نے اس دنیا کے آتش کدے ٹھنڈے کرنے ‘ ظلم کی طویل رات کو نور سے بھر دینے اور سسکتی تڑپتی انسانیت کو سکینت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ۔رسول اللہ ؐ کی آمد اس دنیا کا سب سے خوب صورت اور سب سے حسین لمحہ ہے ۔ راتوں میں اجالا پھیلنے لگا ‘حجاز کے باسی خواہش کرنے لگے تھے کاش! یہ رات ایسے ہی باقی رہے ۔خدا غریق رحمت کرے ’’ دریتم ‘‘ کے مصنف کو‘کیا خوب صورت منظر کشی کی تھی ۔ کیسی حسین اور انوکھی صبح کا تذکرہ ہے جب اہل مکہ عبدالمطلب کے گھر کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں سے خوشبو کے فوارے ابل رہے تھے ۔ قریش اپنے اپنے معبود اپنے اپنے خدا کو سنبھالنے لگے تھے انہیں کیا معلوم کہ اس روز عبدالمطلب کی بہو عفت مآب آمنہ کے گھر سے ان بتوں سے چھٹکارا دلانے والا طلوع ہو رہا ہے آپﷺکی پیدائش کی صبح منا کی وادی ‘مروہ کے سنگریزے‘ قبیس کی چوٹیاں اور عرفات کا لق و دق صحرا نور سے جھلمل کر رہا تھا ۔ صبح صادق کے ستارے جھلملا ئے تو لوگ سید القریش عبدالمطلب خود اس تحیر انگیز منظر میںغرق تھے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ان جیسا خوب صورت اور روشن چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ آپﷺ حسن و جمال کے سامنے سب رنگ پھیکے پڑ گئے ۔ آمنہ کے لعل ؐ کی مدحت کا جب دور شروع ہوا تو قریش کی فصاحت و بلاغت بھی ماند پڑنے لگی ۔ کچھ بوڑھوں کو خواب آنے لگے ‘ایک بوڑھا جو اپنی شجاعت میں یکتا تھا۔ اس روز بولا میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری ۔ ایک خواب سن کر میں نے ہمت ہار دی ہے پھر اس نے خواب سنانے والے کو مخاطب ہو کر کہا ۔ میں اپنے معبود ’’یعوق ‘‘ کوسجدہ کرنا چاہتا ہوں تو ایک ہاتھ نے پکڑ کر سیدھا کردیا اور آواز آئی اب بتوں کو پوجنے کا زمانہ گزر گیا ۔کچھ عرصے بعد اہل قریش ہی نہیں پورا حجاز محمد ابن عبداﷲ کے نام سے گونجنے لگا۔ مکہ والوں کو جب بارش درکار ہوتی تو وہ محمد ابن عبداﷲ کا واسطہ دیتے اور بارش کی التجا کرتے ۔ فصلیں سوکھنے محمد ابن عبداﷲ کے حسن کا واسطہ دے کر پانی مانگتے ۔انہیں اپنی عزتوں کی قسم کھانا ہوتی تو ان کو محمد ابن عبداﷲ سے زیادہ عزت کا محافظ کوئی نظر نہ آتا ۔ انہیں اپنے مجمعوں میں حسن کی انتہا بیان کرنا ہوتی تو محمد ابن عبداﷲ ان کے سامنے ہوتے ۔ ان پر جنگیں مسلط ہوتیں تو وہ محمد ابن عبداﷲ کی بہادری ‘ پامردی اور شجاعت کو مثال بناتے ۔ ان کی امانتیں محمد ابن عبداﷲ کے سوا کہیں اور محفوظ نہ ہوتیں ‘ ان کے فیصلے عدل و مساوات کی بنیاد پر محمد ابن عبداﷲ ہی کر سکتے تھے ۔ حجاز کا سب سے سچا سب سے زیادہ ایفائے عہد کرنے والا ‘ سب سے خوب صورت ‘سب سے دلیر ‘ سب سے زیادہ خیر خواہ محمد ابن عبداﷲ ہی تھے ۔وقت کے ان لمحوں میں وہ لمحہ بھی آیا جب محمد ابن عبداﷲ ( فداک امی و ابی ) کو ہ صفا پر کھڑے ہوئے اور آواز لگائی … ’’ اے گروہ قریش! … ان کی اس آواز پر سب قریش والے دوڑے چلے آئے ۔ یہاں سب بوڑھے ‘ جوان ‘ بچے ہر طرح کے قریش جمع ہوئے تو آپ ؐ نے فرمایا۔’’ اگر میں یہ کہوں کہ پہاڑ کی دوسری جانب سے ایک لشکر مکہ پر حملہ کرنے آ رہا ہے تو کیا تم اس کا یقین کر لو گے ؟‘‘ ’’ کیوںنہیں ‘ بالکل کر لیں گے ‘ تم ہم سب میں سچے اور صادق ہو ‘ہم آپ کی بات کیسے جھٹلا سکتے ہیں۔‘‘ سب نے ایک آواز میں کہا تھا۔ تب آپ ؐ نے فرمایا تم یقین کر لو کہ موت تمہارے سرپر آ رہی ہے اور تمہیں خدا کے سامنے ایک روز حاضر ہونا ہے اور تمہیں خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔‘‘ پھر آپ ؐ نے اپنی رسالت کا اعلان فرمایا… تب مکہ والوں کی پیشانیوں پر بل پڑنے لگے ۔ ان کے لات و عزیٰ ان کے یعوق و ہبل کو اس اعلان نے پائوں کی ٹھوکر پر رکھ دیا تھا۔ آبائو اجداد کا دین چھوڑنا اہل مکہ کے لیے باپ دادا کو بے وقوف کہنے کے مترادف تھا ۔ محمد ابن عبداﷲ کی سب باتیں تسلیم کرنے کو تیار تھے لیکن ’’ محمد رسول اﷲ ؐ‘‘ کی باتیں ماننے کو یہ تیار نہ ہوئے ۔علی ابن طالب ‘ ابو بکر ابن قحافہ ‘ خدیجہ بنت خویلد ‘ زید بن حارثہ اور بلال حبشی رضوان اﷲیہ وہ پانچ مقدس ہستیاں ہیں جنہوںنے لبیک کہہ کر کہن سال نظام زمین بوس کر دیا ۔ وہ محمد رسول اﷲ ؐ کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے نہ صرف کھڑے ہوئے بلکہ پوری دنیا سے ٹکرلے لی،استقامت اور جدوجہد نے ظلم کے ہر پہاڑ کو زمیں بوس کردیا۔تئیس برس وہ وقت آگیاجب پورا عرب محمدﷺ کے زیر نگین تھا،وہ جو جان کے دشمن تھے اوروہ جو اول روز سے ساتھ چلے تھے،سب یک دل یک جان ہو گئے۔ کبھی کبھی یہ سوچ دل میں آتی ہے کہ ہم بھی بس آپﷺ کی آمد کے روز دروبام سجا لیتے ہیں ‘ ان کی زلفوں اور آنکھوں کی تعریفیں کر لیتے ہیں ‘ ان کے حسن اور دل کشی کے تذکرے کرتے ہیں ‘ انہیں کائنات کا خوب صورت ترین عطیہ کہتے ہیں ‘ انہیںوجہ وجود کائنات مانتے ہیںلیکن …… محمد رسول اﷲ ؐ کی حیثیت ہمارے سامنے نہیں رہتی جب آپ ؐ سے محبت کے بڑے بڑے دعوے محض ان کی صورت کی تعریف تک محدود ہو جاتے ہیں لیکن ان کی سیرت ان کی زندگی کی جدوجہد اور آزمائشیں آنکھوں سے اوجھل کر دیتے ہیں … بس یہی فرق اکثر رلاتا ہے۔ تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا ٭٭٭٭٭