ایک خبر کے مطابق اتحادی حکومت نے پچھتر سال کا ریکارڈ توڑتے ہوئے پچھتر رکنی کابینہ ترتیب دے دی ہے۔ تین سو بیالیس رکنی قومی اسمبلی کی اکثریت چونکہ جاگیردار، وڈیروں، چوہدریوں، خانوں، صنعت کاروں اور کاروباری افراد پر مشتمل ہے اس لئے اس ’مقدس‘ ایوان کی رکھوالی کرنے والوں نے ایسے قوانین منظور کررکھے ہیں جن کی بدولت ایک رکن ِاسمبلی کو لامحدود مراعات میسر ہوتی ہیں۔ اسی طرح ایک صوبائی یا وفاقی وزیریا محض مشیر کو تنخواہ، گاڑیاں، بنگلہ، مفت بجلی، گیس، پانی، نوکر چاکر سمیت دیگر حکومتی اختیارات میسر ہوتے ہیں جن کا تصور عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ غیر قانونی اختیارات اور اْن کا استعمال ایک اضافی اختیار ہوتا ہے جو حکومت ِ پاکستان کا ہر فرد اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ اِس وقت وفاق میں پاکستان مسلم لیگ (نواز)، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمن) اور دیگر سیاسی جماعتیں حکومت قائم کئے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کی سربراہی میں پاکستان تحریک ِ انصاف کا راج ہے۔اس راج کو تاراج کرنے میں وفاقی اتحادی حکومت سر توڑ کوششیں کررہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں گزشتہ نو سال سے بلا شرکت ِ غیرے پاکستان تحریک ِ انصاف حکمران جماعت کے طور پر راج کررہی ہے۔ سندھ میں پچھلے پندرہ سال سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ملے جلے رحجان والی اتحادی حکومت بنتی آرہی ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد جموں اینڈ کشمیر میں ہمیشہ اْسی کی حکومت بنتی آرہی ہے جو جماعت وفاق میں حکومت بناتی ہے۔ اِسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے تاحال آزاد جموں اینڈ کشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہے جو اتحادی حکومت کی موجودگی میں بھی قائم و دائم ہے۔ گزشتہ دس پندرہ سال سے یہی جماعتیں ریاست ِ پاکستان پر قابض ہیں مگر آج تک کسی سیاسی جماعت نے ببانگ ِ دہل یہ دعویٰ نہیں کیا کہ گزشتہ بیس سال کے دوران انہوں نے کون سی یونیورسٹی، میڈیکل کالج، ہسپتال بنایا یا پولیس اور عدلیہ کا نظام درست کردیا ہو۔کالم کا موضوع چونکہ سیاست کی بجائے ریاست ہے۔ اس لئے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اس وقت حکومت ِ پاکستان نے اپنا جثہ اس قدر بھاری کرلیا ہے کہ ریاستِ پاکستان حکومت ِ پاکستان سے ملتمس ہے کہ کسی طرح اْس کے وجود کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔ مگر حالات و واقعات اس کی نفی کرتے ہیں۔ حالات کے مطابق وفاق اور صوبوں میں سبھی قائم حکومتوں نے اپنے وزرائ، مشیران، اسسٹنٹ اور نجی ملازموں کی فوج ِ ظفر موج بھرتی کررکھی ہے اور ان پر اْٹھنے والے سارے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں۔ ریاست ِ پاکستان اس وقت گھٹنوں کے بل جھک چکی ہے۔ ریاست دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ریاست میں عوام کی حالت قیدیوں جیسی ہوچکی ہے۔ حکومت ِ پاکستان نے ریاستِ پاکستان میں عوام کو رعایا سمجھتے ہوئے اپنا یرغمال بنا لیا ہے۔جگا ٹیکس وصول کرنے والی حکومت اور آئنی اداروں میں غیر آئنی اقدامات اٹھانے والوں پر اْٹھنے والے ہوش ربا اخراجات کو پورا کرنا ریاست ِ پاکستان کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔آئینی اداروں کے غیر آئینی کارناموں کی فہرست اگرچہ بہت لمبی مگر رب ِ عظیم کے ہاں ظلم کی رسی کھینچنے کا وقت شاید بہت ہی قریب آتا جا رہا ہے۔حکومت ِ پاکستان کے سربراہ کی مبینہ آڈیولیکس میں جس انداز سے اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کو ایڈجسٹ کرنے کی بات ہورہی ہے، سن کر یوں لگتا ہے کہ ملک میں غلاموں کی منڈی لگی ہوئی ہے، بازار میں ہر طاقتورداخل ہوتا ہے اور اپنی مرضی کا غلام اپنی منہ بولی قیمت پر خرید کر چلا جاتا ہے۔ ریاست اپنے حربہ ساز سربراہوں اور کارندوں کی تنخواہوں، مراعات اور سہولیات کی فراہمی کے لئے ریاست کے عوام پر ہر طرح سے ظلم ڈھانے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ کوئی ایسا ٹیکس نہیں بچا جو عوام پر نہ لگایا گیا ہو، کوئی ظلم کا ایسا عمل نہیں رہ گیا جو نہ آزمایا گیا ہو۔اب تو چوک چوراہوں پر بھیک مانگتے بچوں، عورتوں اور بزرگوں کی نظروں سے نظریں ملانا محال ہوچکا ہے۔ متوسط طبقہ اپنی عزت ِ نفس بچانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ دوسری جانب حکومت ِ پاکستان کے وزراء ، مشیران اور دیگر سرکاری مشینری چلاتے ہرکاروں کی جائیدادوں، کوٹھیوں، بنگلوں، بینک بیلنس اور ٹھاٹھ باٹھ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت ِ پاکستان بنانے والوں نے حکومت کا خاکہ اور خاکہ کھینچنے کے سارے اختیارات شاید تاقیامت اپنے پاس گروی رکھ لئے ہیں۔ جب جہاں جیسا جی چاہتا ہے ویسا خاکہ تیار کرلیا جاتا ہے اور غلاموں کے ہاتھوں میں فرمان تھما دیا جاتا ہے کہ اگلے دو، تین، چار یا پانچ سال اسی خاکہ کے مطابق حکمرانوں کی اداکاری کرتے جائیں اور اِس دوران محض ایک دوسرے کے خلاف ’ٹیں ٹیں‘ کرنے کی سہولت ضرور دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آڈیولیکس صرف سیاستدانوں کی ہی لیک ہوتی ہیں ۔اْنہیں چونکہ اپنے لامحدود اختیارات کی حفاظت کے لئے کچھ چہرے درکار ہوتے ہیں اِس لئے اْنہیں اس چیز سے کوئی غرض نہیں کہ ریاست ِ پاکستان کا وجود خطرے سے دوچار ہوتا ہے، ریاست کمزور ہوتی جارہی ہے یا ریاست لاغر ہو رہی ہے۔ اْنہیں صرف اپنا حقیقی حقِ حکمرانی چاہئے ہوتا ہے اور یہ سہولت ہر دم موجود کچھ بونے افراد پورا کردیتے ہیں۔ اس لئے حکومت بنانے والوں، بنوانے والوں یا چلانے اور چلوانے والوں کو پچھتر رکنی کابینہ اور کابینہ کے ارکان پر اْٹھنے والے اربوں روپے کے اخراجات سے کوئی غرض نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کے صف میں اپنا لاغر وجود لئے کھڑی یہ ریاست ِ پاکستان خود اپنی حکومت کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ ڈالر، پیٹرولیم مصنوعات، اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور حکومت پاکستان میں شامل افراد اگلی کئی دہائیوں پر مشتمل حق ِ حکمرانی حاصل کرنے میں مصروف ہیں اور جو افراد اس لذت سے محروم ہیں وہ حکومت بنانے اور چلوانے والوں کو ہر طرح کی یقین دہانی کراتے نظر آتے ہیں کہ اْنہیں دوبارہ خدمت کا موقع فراہم کیا جائے۔ اِس سارے گھن چکر میں ریاست ِ پاکستانیوں کو ’گھِن‘ آنے لگی ہے۔