کیا کبھی تنہائی میں بیٹھ کر یہ خیالات اُمڈ کر آپ کے ذہن پر چھانے لگنے لگتے ہیں کہ آخر پاکستان کو کیا ہو گیا ہے؟ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستانی شائستگی‘ تمیز ‘ احترام ایک دوسرے کو برداشت کرنے رواداری اور نظم و نسق کے سرمائے جیسی نعمتوں سے محروم اور ناواقف ہو چکے ہیں کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ہمارے اقدار میں خرابیوں اور کمزوریوں کی وجوہات کیا ہیں؟ کبھی آپ نے سوچا کہ ہماری سیاست کس منتر کے بھینٹ چڑھی ہے کہ سماج تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جا رہا ہے ہم کسی روشن منزل کی طرف پیشقدمی کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہو رہے ہیں، میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ آخر اس دنیا کی آٹھ ارب کی آبادی میں سے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو اس کرہ ارض پر انسان کی امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کی خواہش نہ رکھتے ہوں کیا دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیم کا بنیادی نکتہ سچائی‘ نیکی‘ ایک دوسرے کی مدد اور امن و سکون سے زندگی گزارنا نہیں ہے پھر ہم مذاہب اور نظریات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے درپے کیوں ہیں، جب ہم دنیا میں ہونے والی جنگ و جدل اور ایک دوسرے کو تہہ و بالا کرنے کی مہم جوئی دیکھتے ہیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے طاقت ہی سب سے بڑی سچائی ہے میں آج غزہ میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ کے مناظر دیکھ کر دکھ اور خوف سے رنجیدہ ہوں۔سچ پوچھیں تو میں دن بھی حیران و پریشان تھا جب ہم ہی کیا پوری دنیا کے لوگ ٹیلی ویژن سے چپکے بیٹھے تھے۔یہ ستمبر کی 11تاریخ تھی جب ایک عمارت زمین بوس ہوئی اور اس کے چند منٹ بعد دوسری ناقابل یقین منظر تھا ہوائی جہاز کے ایندھن کا دھواں اور گرتی ہوئی عمارتوں کی دھول ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی نیو کلیائی دھماکہ ہوا ہو دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ طاقتور ملک پر اس کی سرزمین پر حملہ کیا گیا تھا، جس میں اس کے ہی ہوائی جہازوں کو راکٹوں کی طرح استعمال کیا گیا تھا پھر بلند و بالا عمارت کی کھڑکیوں سے کھلی فضا میں آخری سانس لینے کی خواہش لتے سینکڑوں افراد بے بسی سے چھلانگیں مارتے اور موت کے منہ میں جاتے دیکھا تھا، اسی لمحے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ گیارہ ستمبر نے ماضی کو چھوڑ کر ایک ایسے ناقابل تنسیخ موڑ پر جس کا مستقبل معلوم نہ تھا لاکھڑا کیا تھا اور یہ بھی کہ اب دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی سب کا خدشہ یہی تھا کہ اس دھماکے کے بعد امریکہ ایک زخمی ریچھ کی طرح بہت تشدد جواب دے گا یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ اس واقعے کی تپش ہمارے وطن تک بھی پہنچے گی ہر کوئی فکر مند تھا اور یہ فکر صحیح تھی کہ اگر افغانستان پر بمباری ہوئی تو بہت سے بے گناہ مسلمان مارے جائیں گے پھر سب نے ڈیزی گٹر بموں کی بارش ہوئی اور انسانی جسم حدت سے پگھلتے دیکھے ،باقی تاریخ ہے۔آج غزہ میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں جہاں علاقے کی عمارتیں کھنڈر میں تبدیل ہو رہی ہیں، وہاں لوگوں کے کٹے ہوئے اعضاء بہتا ہوا خون تکلیف سے بلکتے زخمی معذور ہو جانے والے لاتعداد بچوں کو دیکھ کر آپ سب کی کیفیت بھی مجھ جیسی ہی ہو گی آپ نے کبھی سوچا کہ ظلم کی رقم ہوتی اس داستان پر دنیا کیوں خاموش ہے مسلم امہ کو چپ کیوں لگ گئی ہے وہ اب تک اس معاملے میں مداخلت پر اپنی ترجیحات کا جائزہ لے رہی ہے کوئی بھی ایسا نہیں کہ آگے بڑھ کر اسرائیل کا ہاتھ روک سکے، یہ بڑی طویل کہانی ہے۔1967ء کی وہ رات جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر کو نیند سے بیدار کر کے بتایا گیا کہ رات کی تاریکی میں اسرائیل کے بمبار طیاروں نے مصر کی فضائیہ کے تمام ڈھانچے اور تنصیبات کو تباہ و برباد کر دیا ہے، نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرا، اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے دنیا وہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہی ہے ،جس میں آگ و خون کا یہ کھیل جاری ہے، اس میں وہ مرحلہ بھی آیا جب مصر کے صدر انور السادات نے 1973ء میں اسرائیل سے بدلہ لینے کی ٹھانی اور مصر کی افواج نہر سویز کے کنارے تک پہنچ گئیں یہ امریکہ ہی تھا جس نے اس مرحلے پر اپنی ساری طاقت جھونک کر اسرائیل کو بچایا اور آج تو اسرائیل خود اتنا توانا ہو گیا ہے کہ سب کو آنکھیں دکھا رہا ہے، اس دلیل میں وزن ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر کے 23لاکھ افراد کی تمامتر ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرنا چاہے گا اس لئے وہ غزہ کے لوگوں سے شمالی حصے کی طرف جانے کی دھمکی دے رہا ہے، اس علاقے کی طرف جہاں انسانی ضروریات کی کوئی سہولت موجود نہیں جب بھی ہم فلسطین اور کشمیر کی جنگ آزادی پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں بے دریغ طاقت کا استعمال اور ظلم و جبر کی داستانیں بکھری پڑی ہیں، اگر ہم خود اپنے ملک کی پریشانیوں اور مسائل کا جائزہ لیں تو ہماری پریشانیوں کا دور 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے ساتھ شروع ہوا۔اس جنگ کے ساتھ پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے اس جنگ میں جسے ہمارے حکمرانوں نے جہاد کا نام دیا تھا، اس کی امداد اور راستہ فراہم کرنے میں ناگزیر اتحادی ملک کا نہ صرف درجہ حاصل کر گیا تھا، وہاں امریکہ کے لئے پاکستان نمبر ون ترجیح ملک بھی بن گیا تھا، افغان جنگجو سرداروں اور ان کے اسلحہ بردار ساتھیوں کو سوویت یونین سے لڑنے کے لئے مسلح کیا گیا اور مالی امداد دی گئی تمام اسلامی دنیا سے آئے ہوئے 20سے 30ہزار مجاہدین کے ساتھ پاکستان کے کچھ مدرسوں کے طلباء کو تربیت اور مالی امداد دی گئی انہیں مسلح کیا گیا اور سوویت کا مقابلہ اور افغانوں کی کمک کے لئے جانے کی حوصلہ افزائی کی گئی، یہ جہاں 10سال تک 1989ء تک چلتا رہا سوویت فوجوں کی شکست کے بعد جب یہ فوجیں بہت عجلت میں واپس لوٹیں تو وہ بھاری اسلحے کی ایک بہت بڑی تعداد جن میں ٹینک توپیں اور ہوائی جہاز تک شامل تھے، مع بڑی تعداد میں گولہ بارود کے ذخیرے اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔ ’’دیوار برلن‘‘ کے گرنے اور سوویت خطرے کے کم ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ بھی اس علاقے کو اپنے حال پر چھوڑ کر چلے گئے افغانستان میں 1989ء سے 2001ء تک بارہ سالہ داخلی جھگڑوں کے سبب بے انتہا تباہی پھیلی اس انتشار کے نتیجے میں پاکستان میں 40لاکھ پناہ گزیں آئے 1995ء میں اس کی بدولت طالبان وجود میں آئے اس کے سبب بین الاقوامی مجاہدین القاعدہ میں شامل ہو گئے اور متعدد عرب ملکوں کے لوگ بھی اس میں شامل ہو گئے۔دوسری طرف عراق کویت تنازعہ جس میں ایک گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اس ڈرامہ کا ڈراپ سین صدام حسین کی پھانسی پر ہوا۔ پھر کرنل قذافی کی ہلاکت بھی ایک بڑا واقعہ تھا پھر نائن الیون جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ،افغانستان میں غضبناک حملوں اور وہاں چھاپہ مار اور نہ ختم ہونے والے انتشار کے باعث القاعدہ کے بہت سے کارکن پاکستان کے مغرب میں واقع پہاڑوں اور شہروں میں منتقل ہو گئے اور پاکستان میں خودکش حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گویا یہی کافی نہیں تھا کہ 1989ء سے مقبوضہ کشمیر میں چلتی ہوئی جدوجہد آزادی بھی پاکستانی معاشرے پر گہرے اور وسیع پیمانے پر اثر انداز ہوئی پاکستان میں ہی کیا دنیا میں جہاں جہاں دہشت گردی ہو رہی جب احساس محرومی کا کڑوا ذائقہ جبر برداشت رنے کی ہمت جب جواب دینے لگتی ہے تو یہ احساس جہالت اور غربت سے جا ملتا ہے تو ایک دھماکہ خیز مواد تیار ہو جاتا ہے غیر متوازن برتائو اور اپنے ہم مذہبوں پر ظلم ہوتے دیکھنا۔ایسی وجوہات ہو سکتی ہیں جو لوگوں کو دہشت گردی کی طرف مائل کرتی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ عالمی طور پر ہمیں سیاسی جھگڑے ختم کرنے چاہئیں اور دنیائے اسلام میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے معاشرتی اور اقتصادی ترقی پر زور دینا چاہیے ہمیں اپنے ملک کے حقیقی مسائل پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، ہمارا معاشرہ بتدریج تقسیم کے عمل سے گزر رہا ہے، اس میں ہمارے سیاسی اور مذہبی اکابرین نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اگر مسلم ممالک میں معاشرتی ذہنی اور جذباتی ہم آہنگی ہے ہمیں ایک دوسرے کے تجربات سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔اتحاد کے امکانی راستوں کو تلاش کرنا چاہیے مسلم امہ کو خود کو ایک فعال اور فیصلہ کن طاقت بنانے کے لئے بہت محنت کرنا ہو گی لیکن کامیابی تب ہی حاصل ہو گی جب ہم اپنے ملک میں بھی مقصد کے حصول کی طرف متوجہ اور ثابت قدم رہیں گے۔