’’عمران خان بزدل ہے‘ پولیس اور رانا ثناء اللہ کے ڈر سے گھر میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ لوگ عمران خان کو مسترد کر چکے ہیں۔ عمران خان عدالتوں کا لاڈلا ہے‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ لوگ کہہ رہے ہیں جنہوں نے عمران خان پر 100 کے قریب ایف آئی آر درج کرادیں اور جن پر عمران خان اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا الزام لگاتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست کو اسی یا نوے کے عشرے کی سیاسی لغت کے ساتھ نہیں پڑھا جا سکتا۔ اس زمانے میں نوازشریف اور ان کے ساتھی سیاست کو مسخ کرنے کے لیے پوری طرح آزاد تھے۔ بے نظیر بھٹو ہمیشہ نالاں رہتیں۔ نوازشریف کبھی ان کی کردار کشی کراتے‘ کبھی ان کے شوہر کی سرگرمیوں کو 10 پرسنٹ کا نام دیتے۔ بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک بھی نوازشریف نے کہا۔ وہ بے نظیر بھٹو کو جلسوں میں ’’یہ عورت‘‘ کہہ کر پکارتے۔اب ان کی صاحبزادی اور صاحبزادی کے ماتحت یہی کچھ کر رہے ہیں ،بلکہ نواز شریف سے زیادہ ۔ پیپلزپارٹی عام لوگوں کی جماعت تھی۔ بے نظیر بھٹو سوشلسٹ کانفرنس‘ افریقی ممالک کی تنظیم‘ ترقی پذیر ممالک کے اجلاسوں اور عالمی طاقتوں کے سامنے اپنی جمہوری دانشمندی کا بھرپور مظاہرہ کرتیں۔بین الاقوامی اجلاسوں میں بڑے بڑے لیڈر ان کو حیرانی سے دیکھا کرتے ۔ وہ دنیا میں شناخت رکھتی تھیں۔ ان کے مقابلے میں نوازشریف گمنام سے تھے۔ صرف چند عرب ممالک اور بھارت ان کو پہچانتے تھے۔ نوازشریف کی کوئی نظریاتی تربیت تھی نہ وہ بین الاقوامی تعلقات کوسمجھتے تھے۔انہیں صرف عرب ملکوں سے تعلق کا سبق پڑھایا گیا تھا ، ان کے خارجہ تعلقات افغان جہاد کے سیاسی رابطہ کے سوا کچھ نہیں تھے ۔لین دین جو بھی کیا ان ملکوں سے کیا جو افغان جہاد میں شامل تھے ۔ان کے پاس بعد از جنگ ملک کی تعمیر کا کوئی ایجنڈہ نہیں تھا، ایک صاحب نے سی پیک کا مشورہ دیا ۔اچھا منصوبہ تھا ،خارجہ تعلقات میں کی گئی غلطیاں سدھارنے کا موقع پیدا ہو گیا تھا،سی پیک کو ملک کے لئے مفید بنانے کی بجائے اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا سوچا،اورنج ٹرین اور میٹرو بس کو اسی کے کھاتے میں ڈال دیا۔ جہاں کام ہونا تھا وہ صنعتی زون اب تک ویران پڑے ہیں۔زرعی ترقی پر کام نہ ہونے دیا ، ان کے زمانے میں کپاس کی کاشت کم ہوئی اور ٹیکسٹائل ملوں کی پریشانی بڑھی ۔پچھلے دس ماہ سے ان کی جماعت سی پیک پر کوئی کام نہیں کر سکی ۔ بس لوہے کے اچھے کارخانہ دار تھے جو مطلوبہ قابلیت والے لوگوں کو اپنے اردگرد جمع رکھتے۔ اس طرز کار نے انہیں ہمیشہ پرچی کا محتاج بنا دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری تھی۔ امریکی ڈرون طیارے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر آئے روز میزائل گراتے اور اکثر معصوم شہری جاں بحق ہوتے۔ اس وقت مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی اقتدار میں آئیں لیکن ڈرون حملوں پر رتی برابر احتجاج نہ کیا۔ عمران نے ریلی نکالی۔ قبائلی علاقوں تک گئے۔ ہمیشہ سے سیاست دانوں سے دور رہنے والے قبائلی علاقوں کو پہلی بار کسی نے اپنایا تو عمران خان کی حمایت بڑھنے لگی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران کے پی کے بری طرح متاثر ہوا اور عمران خان نے یہاں کے لوگوں کو بھلے کچھ نہ دیا لیکن ان کا دکھ محسوس کیا۔ اس کا انہیں صلہ ملا۔ ہر الیکشن میں نئی پارٹی کی حکومت بنانے والا کے پی کے دوبار پی ٹی آئی منتخب کر چکا‘ آثار بتاتے ہیںکہ تحریک انصاف وہاں تیسری بار بھی حکومت بنا لے گی۔ یہ پالیسی اس عمران خان نے اختیار کی جسے غیر سیاسی کہا جارہا ہے اور جس کی کامیابی کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالا جاتا رہا ہے۔ اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان کے سبزہ زار میں جلسہ تھا۔ مسلم لیگ کے رہنما پرویز رشید نے پرتکبر انداز میں ٹی وی پر اعلان کیا کہ عمران جلسہ گاہ میں رکھی 50 ہزار کرسیاں بھر دیں تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ پرویز رشید وہی ذات شریف ہیں جنہوں نے سیتا وائٹ سکینڈل کے ذریعے عمران خان کا 1997ء میں الیکشن خراب کیا۔ غرور کا سر نیچا ہوا اور کرسیاں کیا جلسہ گاہ کے باہر کی سڑکیں تک بھر گئیں۔ اس جلسے نے تحریک انصاف کو زندگی دے دی۔ اس کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ کے قدم نہ جم سکے۔ جب کہا گیا کہ جناب اب سیاست چھوڑ دیں تو پرویز رشید سمیت ساری مسلم لیگ نے کہا کہ یہ تو اسٹیبلشمنٹ نے بندے فراہم کئے۔اب جب اسٹیبلشمنٹ کومسلم لیگ ن اپنے ساتھ کھڑیکرتی ہے تو عمران کے ارد گرد محافظ بن کر کون کھڑا ہے ۔عام لوگ ۔ 2013ء میں عمران خان زیادہ نشستوں پر جیت رہے تھے۔ پھر کچھ انتظامات ہو گئے۔ عمران اس دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر آ گئے۔ مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری نے بھی دھاندلی کا اعتراف کیا لیکن سیاسی مصلحت نے انہیں خاموش کرا دیا۔ عمران نے خاموش رہنے سے انکارکردیا۔ یہ عام آدمی کے دل کی آواز تھی۔ لوگ عمران خان کے ساتھ جڑتے گئے۔ چار حلقوں کے ووٹوں کی پڑتال کا معاملہ کھلا تو دھاندلی کو بدانتظامی کا نام دے کر چھپا لیا گیا لیکن عمران کا موقف درست ثابت ہوا۔ عمران خان نے بدعنوانی کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ یہ ان کی اسی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ لوگ سیاستدانوں کو سرکاری خزانے سے کوئی چیز ہڑپ کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ عمران خان کی وجہ سے وزیروں مشیروں کے اخراجات کی نگرانی شروع ہوئی‘ اب توشہ خانہ کی لوٹ مار بھی بند ہو گئی۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ 13 جماعتوں کے جی دار مل کر اکیلے عمران خان کو ڈرا سکے‘ تنہا کر سکے اور نہ ہرا سکے۔ جب کسی طور بس نہیں چلا تو بزدلی کا طعنہ دے دیا۔ تعجب اس بات پر ہوا کہ لندن میں میاں نوازشریف اپنے پسندیدہ رپورٹروں کو کہہ رہے تھے کہ ’’عمران خان بزدل ہیں وہ گرفتاری دینے سے ڈرتے ہیں۔‘‘