چین کے صدر ژی جن پنگ 20 مارچ سے ماسکو کا دورہ کررہے ہیں، جہاں وہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے بات چیت کریں گے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں منعقد ہورہا ہے جب روس کے اتحادی چین نے یوکرائن میں جنگ کے خاتمے کے لیے "یوکرائن کے بحران کے سیاسی حل پر چین کا موقف " کے عنوان سے بارہ نکات پر مشتمل تجاویز پیش کی ہیں۔ مغربی ممالک نے اِن تجاویز کا غیر پرجوش استقبال کیا ہے اور بیجنگ کو ماسکو کو ہتھیاروں کی فراہمی کے خلاف خبردار بھی کیا ہے۔ اب تک چین نے یوکرائن میں جنگ جیتنے میں مدد کے لیے روس کو مہلک امداد فراہم نہیں کی ہے، حالانکہ اَمریکہ کا دعویٰ ہے کہ چین ایسا کرنے پر غور کر رہا ہے۔ روسی فوجیوں کے یوکرائن پر حملے کے بعد صدر ژی جن پنگ کا روس کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔ وہ پیر کو مسٹر پیوٹن کے ساتھ لنچ کرنے والے ہیں، جس کے بعد منگل کو بات چیت ہوگی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق چین یوکرائن کی جنگ کے بارے میں "معروضی اور منصفانہ موقف" کو برقرار رکھے گا اور "اَمن کے لیے مذاکرات کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرے گا"۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چینی صدر ژی جن پنگ 2019 میں صدر پیوٹن کو اپنا "بہترین دوست" قرار دے چکے ہیں اور دونوں رہنما دوطرفہ تعلقات کو سراہتے ہوئے انہیں "21ویں صدی میں بین الریاستی تعاون کی ایک مناسب مثال" گردانتے ہیں۔ چین اور روس کے درمیان اِنتہائی قریبی تعلقات کے بین الاقوامی سیاست میں خاص طور پر یورپ میں ہونیوالی حالیہ پیش رفت کے پس منظر میں اہم مضمرات ہیں۔ روس اور چین نے نہ صرف فوجی میدان میں تعاون بڑھایا ہے بلکہ اقتصادی، سرمایہ کاری اور تجارتی محاذوں پر باہمی تعاون کو مزید مضبوط کیا ہے۔ ایک سال قبل روس کے یوکرائن پر حملہ کرنے کے بعد، مغربی ممالک نے روس پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں جبکہ تیل کی درآمد اور ہائی ٹیک مصنوعات کی برآمدات پر پابندی لگا دی تھی۔ بہت سی مغربی فرموں نے روس کے ساتھ اپنے روابط مکمل طور پر منقطع کر لیے جس کی وجہ سے 2022 کے دوران امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک کے ساتھ روس کی تجارت میں کمی آئی۔ جیسے ہی 2022 میں مغربی ممالک کے ساتھ روس کی تجارت میں کمی آئی، چین اِس کا سب سے اَہم تجارتی پارٹنر بن گیا ہے۔ تاہم،روس کے ساتھ چین کی مجموعی تجارت 2022 میں 190 بلین ڈالر کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی،جو کہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔چین سے روسی درآمدات 13 فیصد بڑھ کر 76 بلین ڈالر اور چین کو اس کی برآمدات 43 فیصد بڑھ کر 114 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں،تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ روس جو چین کے مقابلے میں 10ویں نمبر کی معیشت کا درجہ رکھتا ہے،چین کے جونیئر پارٹنر کے طور پر کردار ادا کرتا نظرآتا ہے۔ اِس تناظر میں چینی حکومت کو روس پر یقینی طور پر کچھ غلبہ حاصل ہے۔چینی صدر کے اس دورے کو اہم بنانے والے عناصر میں ایک اہم عنصر روس اور یوکرائن کے مابین جنگ میں چین کا غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ ہے اور اس نے ان قیاس آرائیوں کی کبھی مخالفت نہیں کی ہے کہ وہ ماسکو اور کیف کے درمیان ایک ایماندار مصلح کے طور پر کام کر سکتا ہے،خصوصی طور پر جب سے چین نے ایک بڑی سفارتی کامیابی حاصل کی ہے اور مشرق وسطیٰ میں پرانے حریفوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیے سہولت کار کے فرائض انجام دیتے ہوئے دونوں فریقوں کے مابین ایک معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوا ہے۔ جہاں تک یوکرائن میں جنگ کے خاتمے کے لیے چین کی طرف سے دی گئی،بارہ نکات پر مشتمل تجاویز کا تعلق ہے تو چین کی تجاویز میں جنگ بندی اور امن مذاکرات اور کسی بھی ملک کا نام لیے بغیر روس کے خلاف عائد کی گئی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔میڈیا میں رپورٹ ہوئی اَمن تجاویز کے مطابق"متعلقہ ممالک کو یکطرفہ پابندیوں کا غلط استعمال بند کرنا چاہیے" اور "یوکرائن کے بحران کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ " اَمن تجاویز میں یہ بھی ہے کہ تمام ممالک کی خودمختاری کو برقرار رکھا جانا چاہیے،حالانکہ اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ روس کی جانب سے 2014ء میں کریمیا پر قبضے کے بعد سے یوکرائن سے لی گئی،زمین کا مستقبل کیا ہوگا۔اِسی طرح تجاویز میں "سرد جنگ کی ذہنیت" کی بھی مذمت کی گئی ہے،جو اِشارتًا دراصل اَمریکہ اور نیٹو اِتحاد کی سرزنش ہے۔تجویز میں کہا گیا ہے کہ"کسی خطے کی سلامتی فوجی بلاکس کو مضبوط یا توسیع دے کر حاصل نہیں کی جانی چاہیے۔" یہ نکتہ بھی حقیقت میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے یوکرائن پر فوجی حملے سے پہلے کیے گئے اس مطالبے کی حمایت ہے کہ یوکرائن نیٹو اِتحاد میں شامل نہیں ہوگا۔ یوکرائن نے بیجنگ کی اِن تجاویز کے ساتھ مسئلہ اٹھایا ہے جس میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے روس کو اپنی سرحدوں سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے،حالانکہ بعد میں اس نے کہا کہ وہ منصوبے کے کچھ حصوں کے لیے راضی ہے۔ دوسری جانب روس نے بیجنگ کے اِس اقدام کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ اس منصوبے کا ایک "مختصر مطالعہ" کرے گا لیکن یہ بھی کہا ہے کہ اِسے اَبھی تک پرامن حل کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ روس کے لیے چین کی حمایت بڑی حد تک بیان بازی اور سیاسی رہی ہے۔بیجنگ نے اقوامِ متحدہ میں ماسکو کی مذمت کی کوششوں کو روکنے میں مدد کی ہے۔ جبکہ اِس بات کا بظاہر کوئی ثبوت نہیں ہے کہ چین اِس وقت روس کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے البتہ امریکہ کا کہنا ہے کہ چین پہلے ہی غیر مہلک مدد فراہم کر رہا ہے اور وہ مزید بھی فراہم کرسکتا ہے۔ اِن حالات میں چینی صدر ژی جن پنگ کا دورہ روس اِنتہائی اَہمیت کا حامل ہے کیونکہ عالمی مبصرین کے بقول وہ اپنے اِس دورہ کے دوران ممکنہ طور پر صدر پیوٹن سے یوکرائن کی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک قابلِ قبول حل کی تلاش کے لیے آپشنز پر تبادلہ خیال کریں گے، دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ چینی رہنما کا روس جانا ماسکو کے لیے بیجنگ کی مضبوط حمایت کا اشارہ ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ صدر پیوٹن اور صدر ژی جن پنگ ایک جیسا عالمی نظریہ رکھتے ہیں اور دونوں اَمریکی بالادستی کے خلاف متبادل کے طور ایک کثیر قطبی دنیا کے خیال کے حامی ہیں۔