پچھلے تین سال سے وہ ہفتے میں پانچ دن محمد جہانگیر تمیمی صاحب کے مزار پر صبح 8بجے سے دوپہر ایک بجے تک رہا۔ جہانگیر تمیمی پنجاب یونیورسٹی کے استاد تھے۔ ان کی روحانی قدرو منزلت زندگی میں دیکھی جانے لگی تھی۔ وفات کے بعد ان کے ساتھی اساتذہ، شاگردوں اور احباب نے ان کی یاد میں ایک مجلس قائم کر دی ۔قبر پر سفید سنگ مر مر لگوا دیا۔یہاں سفید جالیوں کا خوبصورت کام ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل قبر پر چھت ڈال کر اردگرد چاروں طرف شیشہ لگا دیا گیا۔اب اندر بیٹھیں تو ارد گرد کی آوازیں نہیں آتیں لیکن سب کچھ دکھائی دیتا ہے، سکوت کا عجب تجربہ ہوتاہے ، بجلی کا انتظام ہے ۔ جائے نماز اور قرآن پاک کے نسخے رکھے ہیں۔ لوگ آتے ہیں۔ نوافل پڑھتے ہیں‘ قرآن خوانی کرتے ہیں اور فاتحہ کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ جاوید اقبال نے ریٹائرمنٹ کے بعد بیٹی کو یونیورسٹی لانے لیجانے کا کام خود سنبھالا۔ گرین ٹائون سے بیٹی کو یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد اسے واپس آنے میں ٹائم لگتا۔ گھر پر کوئی خاص کام بھی نہیں ہوتا۔ اس نے وہیں وقت گزارنے کا سوچا۔ نیو کیمپس میں ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ کے عین سامنے پارکنگ ہے۔ اس پارکنگ کے پیچھے گھنے درختوں کا ذخیرہ ہے۔ یہ ذخیرہ دراصل قبرستان ہے جہاں اپنے عہد کے کئی بڑے اور نامور اساتذہ و علمی شخصیات دفن ہیں۔ جاوید نے دیکھا کہ مزار کے اردگرد گھاس پھونس ہے‘ درختوں کے پتے گرے ہوتے ہیں۔ کچے راستے اوپر نیچے ہیں۔ کچھ قبروں کو تھوڑی سی مرمت کی ضرورت ہے ۔ بعض قبروں پر مرنے والے کے لواحقین پھولوں کے پودے لگا دیتے ہیں لیکن پانی نہ ملنے پر یہ پودے سوکھ رہے تھے۔ جاوید ڈبے میں پانی لاتا اور کچی راہ پر چھڑکائو کر دیتا۔ جھاڑو سے تنکے اور پتے صاف کر دیتا۔ کھرپے سے سولنگ والے راستے پر اگے گھاس کی صفائی کرتا۔ کچی قبروں کی مٹی ٹھیک کر دیتا۔ قبروں پر لگائے پودوں کو پانی دیتا۔ کئی ماہ بعد اس کی آمدو رفت نے قبرستان کے اس ٹکڑے کو الگ ہی رونق اور شکل دیدی۔ قبرستان آنے والے لوگ ‘ یونیورسٹی کے ملازم اور پرندے تک اس سے مانوس ہو گئے۔لوگ اس کے بارے میں بہت الگ سچنے لگے۔کچھ کا خیال تھا یہ کملا ہے ، کچھ اسے درویش گردانتے ۔اچھی بات یہ کہ سب کا تاثر مثبت تھا۔ ایک شخص مگر ناراض تھا۔ مدثر نامی شخص خود کو تمیمی صاحب کے مزار کا گدی نشین ظاہر کرتا ہے۔ اسے لگا جاوید مزار پر آنے والوں کی توجہ حاصل کر رہا ہے‘ اس نے منع کر دیا کہ مزار پر نہیں آنا۔تمیمی صاحب کے بھائی اور دیگر ملنے والوں نے مدثر کو ایسا کرنے سے منع کیا لیکن وہ ہٹ پر قائم رہا۔حالیہ سردیوں میںایک روز جاوید راستے کی گھاس صاف کر کے ایک سبز قطعے پر آنکھیں موندے دھوپ سینک رہا تھا۔ معترض شخص کسی دوسرے کو بلا کر کہنے لگا: ’’ویکھ کملا ستا پیا اے‘‘ (دیکھو دیوانہ سو رہا ہے) روز روز کی بدمزگی سے تنگ جاوید نے آخر نیا ٹھکانہ تلاش کر لیا۔ جاوید اب پنجاب یونیورسٹی کے مچھلی فارموں کی طرف جا بیٹھتا ہے۔ قریب ہی ایک چھوٹی سی مسجد اب اس کی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ تین روز قبل فون پر بتایا کہ یہاں وضو خانے اور وہاں رکھی چوکیوں کے نیچے میل و گندگی جانے کب سے تھی۔ برش اور سرف سے صاف کر دی‘ پھر بتایا مسجد کے آس پاس جڑی بوٹیاں اور غیر ضروری گھاس صاف کر دیا۔ ایک دن بتایا کہ مسجد سے ملحقہ بیت الخلا جانے کب سے صاف نہیں ہوئے۔ وہاں رکھے لوٹے بھی گندے ہیں۔ جاوید واش روم صاف کرنے والا کیمیکل لے گیا۔ برش سے بیت الخلا چمکا دیے۔ سارے لوٹے نکال کر الگ سے صاف کئے۔ بتا رہا تھا کہ مولوی صاحب کے حجرے کی طرف بھی صفائی کر دی۔ کل فون کیا تو زور زور سے مسلسل ہنسے چلا جا رہا تھا۔میں نے انتظار کیا۔ بتایا کہ آج میں گھر سے کھندوئی سوئی اور دھاگہ لے آیا تھا۔ مسجد کی کچھ دریاں ادھڑی تھیں۔ میں سلائی کر رہا تھا کہ ایک مہربان نے مڑا تڑا پانچ سو روپے کا نوٹ میری مٹھی میں دے دیا۔اس کی بات سن کر میں بھی ہنسنے لگا۔ کچھ دن پہلے ہی میں نے اسے خبردار کیا تھا کہ دیکھنا مزار کی طرح اب کوئی مسجد سے بھی نکال دے گا۔ جاوید نے چند سال پہلے ہی ڈسٹرکٹ فنانس آفیسر کے منصب سے از خود ریٹائرمنٹ لی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ محکمے کے معاملات اس کے بغیر بھی چل سکتے تھے۔ کوئی بیس سال پہلے جب اس سے ملاقات ہوئی تو وہ انگریزی ادب اور فلسفہ میں ماسٹرز کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی تیاری کر رہا تھا۔ شائد اس کے بعد بھی ایک آدھ ایم اے کیا۔ ہاں اسے صحافت سے دلچسپی تھی اسی وجہ سے میں نے مزید ایم اے کرنے کی بجائے ایڈوانس سٹڈی کا مشورہ دیا تو اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کر لیا۔ جاوید کو کوئی مالی پریشانی نہیں۔ وہ آسودہ زندگی گزار رہا ہے‘ بس دوسرے آسودہ لوگوں کی طرح اس کا رہن سہن نہیں۔ وہ بہت سی بنیادی کتابیں پڑھ چکا ،اب سوچنے پر وقت صرف کرتا ہے‘ وہ عام لوگوں جیسا سنی سنائی بات کرنے والا بھی نہیں۔ اس کے جملے بہت پراثر ہوتے ہیں: ’’مردہ پیدا ہونے والوں بچوں کو زندگی کی ضرورت ہوتی ہی نہیں۔ جب تک غریب اور امیر دونوں اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں گے‘ تب تک امیر امیر اور غریب غریب رہے گا۔ علم اختلاف ہے‘ محبت اتفاق ہے۔ کہنے والے اور ہوتے ہیں‘ کرنے والے اور ۔ دوسروں کے خیال میں جو مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ خراب ہوتے ہیں‘ فطرت اور نفسیات کی رو سے وہی مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ ٹھیک ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں کو انگیج رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً ایونٹس createکئے جاتے ہیں‘ کبھی کہیں آگ لگا کر ‘ کبھی جنگ کی جاگ لگا کر۔ اکثر اوقات نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے والے لوگوں کے دل سخت ہو جاتے ہیں۔‘‘ جاوید جیسے لوگ نادر ہوتے ہیں، وہ ایسے لوگوں کے رابطے میں ہوتا ہے جو مختلف ہوتے ہیں ، جیسے حکیم اختر۔حکیم اختر کو ہم ڈاکٹر اختر بھی کہہ دیتے ہیں ۔ایک مزدور جو سوشلزم کی بین الاقوامی باتیں کرتا ہے،پاکستان کے نظام سیاست و گورننس کا تجزیہ کرتا ہے لیکن اپنے خستہ حال حلیئے کی وجہ سے نظر انداز ہے۔مجھے لگتا ہے جاوید کود تو کملا ہے اسے کملے جمع کرنے کا بھی شوق ہے ۔وہ برسہا برس تک دفتر آتے جاتے لوگوں کو لفٹ دیا کرتا ۔اسے لگتا کہ انسانوں کے لئے آسانی فراہم کرنے کے لئے صرف حجرے میں بیٹھنا ضروری نہیں۔ایسے لفٹ والے درجنوں لوگ بعد میں اس کے دوست رہے ۔ان کی بہت سی کہانیاں اس کے پاس ہیں ۔مجھے لگتا ہے وہ کردار سے محروم سماج میں ایک بھرپور کردار ہے۔یہ کالم میں اس کی انسانی خدمات کے نام کرتا ہوں۔