راقم کئی برسوں سے ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے بارے میں اپنی استعداد کے مطابق لکھتا چلا آرہا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے راقم سے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ عافیہ صدیقی کے لئے کچھ لکھیں ،اس لئے اس بار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے جو بتایا ،وہی لکھ رہار ہوں، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ’’ 23ستمبر، 2010ء امریکہ ہی نہیں دنیا کی عدالتی تاریخ کا وہ بھیانک دن ہے جب انصاف کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک امریکی متعصب جج رچرڈ برمن نے سازش کے تحت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86برس کی سزا سنائی تھی۔اس جج نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عافیہ جو کہ پاکستانی شہری ہے،اس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں اور عافیہ کو صرف اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ اس پر یہ الزام ہے کہ اس نے 6امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور بندوق اٹھائی، ان پر گولیاں چلائیںلیکن اس کے نتیجے میں کسی امریکی فوجی کو نقصان نہیں پہنچا جبکہ ڈاکٹر عافیہ امریکی فوجیوں کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہو گئیں۔ سزا کے بعد عافیہ نے عدالت میں کہا تھا کہ میں نے اپنا فیصلہ اللہ کی عدالت پر چھوڑ دیا ہے میں سب کو معاف کرتی ہوں۔ عدالت میں اس فیصلے کے بعد جج کے خلاف شیم شیم کے نعرے بلند ہوئے اور عدالت میں موجود عیسائی، یہودی اور مسلمانوں نے عافیہ سے یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ آج امریکی عدالت میں امریکی انصاف کا قتل ہوا ہے۔ امریکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی عدالت نے کوئی جرم ثابت ہوئے بغیر 86برس کی سزا سنائی ہو۔ ڈاکٹر عافیہ کی فیملی ایک دو نہیں کئی مرتبہ یہ بات کہہ چکی ہے کہ ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے، عافیہ کو با عزت طریقے سے وطن واپس لے آئو تاکہ مسلمانوں کی تاریخ پر ’’بیٹی فروشی‘‘ کا لگنے والے شرمناک دھبہ مٹایا جا سکے۔ مشہور امریکی ریسرچ اسکالر اسٹیفن لینڈ مین نے عافیہ کی سزا پر یہ بیان دیا تھا کہ ’’عافیہ کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے‘‘۔ متعصب امریکی وکیل و تجزیہ نگار اسٹیون ڈائونز جس نے ہمیشہ عافیہ کی مخالفت میں تحریریں لکھی تھیں امریکی عدالت کی نا انصافی اور عافیہ کی جرم بے گناہی کی سزا دیکھ کر وہ بھی چیخ اٹھا ۔ فوزیہ صدیقی نے حسب روایت نام نہاد عدالتی فیصلہ کی مختصر تفصیل بیان کی لیکن اس بار انہوں نے امریکی دورے کی تازہ صورتحال بھی بیان کی کہ ’’میری بہن سے 20 سال کے بعد ایف ایم سی کارزویل جیل میں 30 مئی، 2023 کو ملاقات ہوئی تھی، اس وقت ہماری جو کیفیت تھی اس کا احوال الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ ملاقات کے چھوٹے سے کمرے کو درمیان میں موٹے شیشے کی دیوار سے تقسیم کردیا گیا تھا۔ہم دونوں بہنوں کو دو دہائیوں کے بعد ہونے والی ملاقات میں بھی گلے ملنے یا چھونے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ مجھے عافیہ کے بیٹے اور بیٹی کی تصویریں شیئر کرنے سے بھی منع کردیا گیا۔ ملاقات کے دوران جیل کی بھاری کنجیوں کی آواز پس منظر موسیقی کی طرح وقفے وقفے سے بج رہی تھی۔ میں اپنی چھوٹی بہن کی حالت زار دیکھ کر انتہائی پریشان تھی۔وہ جیل کی خاکی یونیفارم پہنے ہوئے تھی اوراس نے سر پر پرانا سا سفید اسکارف پہنا ہوا تھا۔ جیل میں حملے کی وجہ سے اس کے اوپری دانت غائب تھے اور سرپر بھاری ضرب سے چوٹ کی وجہ سے اسے سننے میں بھی دشواری پیش آ رہی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کسی زندہ لاش سے ملاقات کر رہی ہوں۔ عافیہ نے بتایا کہ میں ہر روز اپنے خاندان کو یاد کرتی ہوں میں اپنی ماں، والد بہن اور بچوں کے بارے میں ہر وقت سوچتی رہتی ہوں ۔ ملاقات کے اختتام پر میں نے جونیئر جیل افسران کا احترام کے ساتھ پیش آنے پر شکریہ ادا کیا۔ میں اس وقت فوری طور پر کوئی گفتگو یا تبصرہ کرنے سے قاصر تھی اور جیل سے باہر آنے کے بعد گاڑی میں روتی رہی تھی‘‘۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ عافیہ کی صحت کے حوالے سے حالت انتہائی خراب ہے۔ عدالت جب کسی کو سزا سناتی ہے تو اس میں کہیں نہیں لکھا ہوتا کہ قیدی کے ساتھ جیل میں بدسلوکی یا تشدد کرنے کی اجازت ہوگی۔ عافیہ کے ساتھ ایف ایم سی کارزویل جیل میں مسلسل بدسلوکی ، ذہنی و جسمانی تشدد اور جنسی ہراسگی کی جا رہی ہے، جس کی تمام تر تفصیلات سے ڈاکٹر عافیہ قونصل خانے کی طرف سے ملاقات کے لیے آنے والے افسران کوآگاہ کرتی رہی ہیں اور یہ تفصیلات قونصل خانہ وزارت خارجہ کو ارسال کرتا رہا ہے۔ 24 مئی، 2018ء کو بھی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے مکمل تفصیلات ایک رپورٹ کی صورت میں وزارت خارجہ کو ارسال کی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کے امریکی جیل میں گزرنے والے ہر دن کی ذمہ داری حکومت پاکستان اور وزارت خارجہ پر عائد ہوتی ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق عافیہ کوبلیک ہول میں ڈال دیا گیا ہے جو کہ جیل کی انتہائی سخت سزا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے عافیہ کی رہائی کے لیے کبھی بھی سنجیدگی سے کوئی کوشش کی ہی نہیں ، کلائیو اسمتھ کا کہنا ہے کہ ’’عافیہ کی رہائی کی چابی اسلام آباد میں ہے‘‘۔ کلائیو اسمتھ نے 12 ستمبر، 2023 ء کو ڈاکٹر عافیہ سے ایک اور ملاقات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عافیہ کی حالت اچھی نہیں ہے۔ میں20 سال کے بعد اپنی بہن سے اس لئے ملنے نہیں گئی تھی کہ اسے بدترین حالات میں جیل میں چھوڑ کر آجائوں۔ میرا مقصد اس ملاقات کو رہائی کی نئی کوشش بنانا تھا کیونکہ عافیہ بے گناہ ہے۔ بدترین تعلقات کے باوجود ایران اور امریکہ اپنے شہریوں کو رہا کرانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی پاکستان میں ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو اپنے بالخصوص عافیہ جیسے بے گناہ شہریوںکو ملک کے اندر اور باہر مکمل تحفظ فراہم کرے۔