سال 2023ء کا آغاز پی ڈی ایم کی نام نہاد حکومت کے ساتھ ہوا، جس نے 77سالہ پاکستانی تاریخ کی ریکارڈ 49فیصد تک مہنگائی کی۔ اس کا سہرا یقینا نواز لیگ کے سر پر ہوگا کیوں کہ وزیر اعظم سمیت وزراء کی بڑی تعداد اُنہی کی تھی۔ اسی سال مذکورہ جماعت کے سربراہ اور سزا یافتہ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی ’’علاج ‘‘ کے بعد پاکستان واپس آئے، پھر اُن کی سزائیں بھی معطل ہوئیں اور الیکشن کے لیے اُنہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ دوسری طرف تحریک انصاف خاصی دبائو کا شکار رہی، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اُسے خاصا دبایا گیا۔ ویسے تو جب سے پی ڈی ایم کی حکومت برسراقتدار آئی تھی، تبھی سے تحریک انصاف کو دبائو میں لایا جا رہا تھا مگر چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کے بعد تو یہ معاملہ مسئلے کی شکل اختیار کر گیا۔ جی ہاں! سال 2023ء کا سب سے بڑا واقعہ 9مئی کا تھا،،، ویسے تو جو ہوا وہ بہت برا تھا، نہیں ہونا چاہیے تھا،، ، لیکن یہ گھمبیر مسئلہ بھی آہستہ آہستہ سیاسی رنگ اختیار کر گیا۔ یعنی ایسا کوئی بھی مسئلہ جسے اُلجھا دیا جائے وہ سیاسی لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ مبینہ طور پر جنہوں نے یہ واقعہ سرانجام دیا وہ بھی شش و پنج میں مبتلا ہیں اور ادارے بھی۔ 7ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد ابھی تک اس پر کوئی جوڈیشل کمیشن نہیںبنا، اس پر کوئی غیر جانبدار کمیشن نہیں بیٹھا، اس پر کوئی غیر جانبدار تحقیق نہیں ہوئی۔ یہ واقعہ ابھی تک سب کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے …کہ وہ تھا کیا؟ حالانکہ اسی قسم کا واقعہ 2021ء میں امریکا میں بھی ہوا جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے ’’فدائین‘‘ نے 6جنوری کو کیپیٹل ہل پر ہلہ بولا۔ امریکی تاریخ میں اس قسم کی بغاوت کا انوکھا واقعہ سرزد ہوا۔اس واقعہ پر چھ قسم کی ٹیمیں بنا کر تحقیق کی گئی، جنہوں نے9سو صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی۔ لیکن یہاں ایسی کسی قسم کی تحقیق کا نا تو رواج ہے اور نہ ہی ادارے آزادانہ کام کرتے ہیں۔ بلکہ اس حوالے سے پاکستانی عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ابھی تک شفاف جوڈیشل تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں۔ یہاں بھی اسی قسم کی ٹیمیں تشکیل دی جانی چاہیے تھیں، جس قسم کی ٹیمیں امریکا میں اسی قسم کے واقعے کے لیے تشکیل دی گئیں، لیکن ہماری قسمت کہ سب کوہلو کے بیل بنے ہوئے ہیں کہ ’’ملوث افراد کو انجام تک پہنچائیں گے‘‘ لیکن یہ ثابت کس نے کرنا ہے کہ کون ملوث تھا کون نہیں! کیوں کہ فی الوقت تو یہی لگ رہا ہے کہ وہ ایک سیاسی دھکا تھا، جو ایک جماعت نے دوسری جماعت کو جال میں پھنسانے کے لیے دیا تھا، اگر چیئرمین پی ٹی آئی یہ کہتے ہیں کہ وہ جیل میں تھے، اُنہیں کیا علم کہ کیا ہوا ہے، کیا نہیں! تو اس بارے میں بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ کیا اُنہوں نے جیل کے اندر سے کوئی پیغام باہر بھیجا؟ پھر اسی طرح شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ وہ نا تو لاہور میں تھے، نہ پشاور اور نہ کہیں اور بلکہ وہ تو کراچی میں تھے، اسی طرح باقی قیادت بھی اسی قسم کی باتیں کر رہی ہے پھر یہ بھی الزام لگتا ہے کہ چند افراد نے کارکنوں کو کچھ بلڈنگز کے اندر جانے کے لیے اُکسایا۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس پر سپریم کورٹ کے کسی بھی جج کی زیر نگرانی اس واقعہ کی شفاف ترین انکوائری رپورٹ تیار ہوتی ۔ خیر واپس آتے ہیں سال 2023ء پر تو یہ اس حوالے سے بھی بدترین سال رہا کہ ہم نے نا تو کرپشن کی روک تھام کے حوالے سے کوئی ترقی کی اور نہ ہی انصاف دینے میں۔ بلکہ ہمارے ملک کے کرپٹ اداروں کے حوالے سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ہے، اس کے بعد ٹھیکے دینے اور کٹریکٹ کرنے کا شعبہ اور پھر عدلیہ ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے بالترتیب چوتھے اور پانچویں کرپٹ ترین شعبے ہیں۔ مقامی حکومتیں، لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ کسٹم، ایکسائز اور انکم ٹیکس بالترتیب چھٹے، ساتویں اور آٹھویں کرپٹ ترین ادارے ہیں۔ پبلک سروس ڈیلیوری کی ٹرمز کے مطابق عدلیہ میں رشوت کا اوسط خرچ سب سے زیادہ 25 ہزار 846 روپے ہے۔ یہ سب ادارے دنیا بھر میں بھی پاکستانی سبکی کا سبب اُس وقت بنتے ہیں جب ہمارا ملک دنیا کے ایماندار ملکوں کی فہرست میں 144ویں نمبر پر دیکھا جاتا ہے۔ بہرحال اس سال تحریک انصاف سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئیں، جیسے رواں سال 14 جنوری کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے پنجاب کی 17ویں صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا جبکہ 18 جنوری کو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے خیبر پختونخوا کی 11ویں صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا۔ اُس کے بعد تو ایسے لگا جیسے تحریک انصاف کے ہاتھ سے گیم نکل چکی ہے۔ کیوں کہ بعد میں نہ تو کسی نے الیکشن کروائے اور نہ ہی کسی نے سکیورٹی دینے کی حامی بھری۔ بلکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول جاری کرنے کے باوجود 23 مارچ کو الیکشن کمیشن نے پولیس اہلکاروں کی کمی کو جواز بناتے ہوئے پنجاب میں انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کردیے تھے، ملتوی ہوتے ہوتے 2024تک چلے گئے۔ پھر سپریم کورٹ سمیت ملک بھر کی عدالتیں سیاسی افراد کا گڑھ رہیں، جہاں حکومت اور اپوزیشن رہنمائوں کے درمیان بلی چوہے کا کھیل کھیلا جاتا رہا۔ پھر فوجی عدالتیں بھی موضوع بحث رہیں اور عام شہریوں کے کیسز فوجی عدالتوں میں چلانے کے لیے باقاعدہ اجازت دی گئی۔ پھر یہی نہیں بلکہ 5 اگست 2023 کے دن اسلام آباد کی سیشن عدالت نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سنائی۔بعد ازاں سربراہ پی ٹی آئی کو پانچ سال کے لیے سرکاری عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ۔ پولیس نے ان کو ان کی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کیا۔ بعد از گرفتاری کم و بیش 150کیسز بنائے۔ واقعات تو 2023ء کے اور بھی بہت سے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم ان گھمبیر واقعات سے کیا سیکھتے ہیں؟ یقینا کچھ نہیں سیکھتے، تبھی یہ بار بار ہوتے ہیں اور ملک پیچھے چلا جاتا ہے، ابھی بھی ایک تازہ رپورٹ میرے سامنے میز پر پڑی ہے، جس کے مطابق مئی کے واقعات کے بعد پاکستان سے 9ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل ہوئی۔ اب بتائیں جو ملک ڈیڑھ ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے پورا سال گھٹنوں کے بل کھڑا رہے، وہ کیسے ممکن ہے کہ ان حالات میں بھی بحران سے نجات کے لئے وہ کچھ نہ کرے جس کی ضرورت ہے! ٭٭٭٭٭