ہم نے تو دسمبر سے اپنی روایتی چھیڑ چھاڑ کی بنا پر ایسے ہی کسی وقت روا روی میں کہہ دیا تھا: گل سُن میری یار دسمبر چھڈ دے مارو مار دسمبر سانوں گھر وچ قیدی کیتا ٹُر جا اپنے گھار دسمبر لیکن جب سال کے خاتمے پر اپنے ہی ترتیب دیے ہوئے کلینڈر پہ نظر پڑی تو اس ٹھنڈے ٹھار مہینے کے سینے پہ سرد مہری اور گرم مزاجی کا ایسا خوف ناک جغرافیہ کندہ دیکھا کہ اچانک منھ سے نکلا: چل دسمبر ، چل دسمبر تیرا نئیں کوئی حل دسمبر تیرے نال نئیں بننی ساڈی ہور کسے نوں گھل دسمبر ذرا اس خونی جنونی مہینے کی کار گزاری تو دیکھیے کہ دسمبر کے ابتدائی پنوں ہی پہ سانحۂ سیالکوٹ درج ہے، جہاں بے حِس افراد کی جیتی جاگتی جہالت نے اندوہ ناک موت کا وہ خونی کھیل رچایا کہ جس کے سامنے پوری انسانیت شرمندہ کھڑی ہے۔ ذرا ماضی کی طرف جھات لگائیں تو اسی دسمبر کے پانچویں زینے پہ اُردو کے بے مثل مزاح نگار پطرس بخاری کی پردیس میںلکھی موت دکھائی دیتی ہے۔ سولہ دسمبر دو سنگین ترین سانحات (سانحۂ مشرقی پاکستان اور سانحۂ پشاور) کے ہولناک سنگم پہ گم صم کھڑا ہے۔ تئیس دسمبر کو ملکۂ ترنم کے سُر گم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ پچیس دسمبر جو ہمیشہ بہت سی خوش خبریوں کے حوالے سے ذہن میں تازہ ہوتا تھا لیکن اب اسی خانے میں شمس الرحمن فاروقی کی موت لکھی ہے۔ چھبیس دسمبر تو لگتا ہے اہلِ قلم کو ہمیشہ خون کے آنسو رلاتا رہے گا،جو ستائیس سال قبل خوبصورت شاعرہ پروین شاکر کو چھین کر لے گیا، پندرہ برس پہلے منیر نیازی کو خاموش کرایا اور اب جاتے جاتے ہمارے قبیلۂ ظرافت کے خوش اطوار، خوش مزاج رُکن جناب سرفراز شاہد کو بھی نہیں بخشا۔ اسی طرح ستائیس دسمبر جہاں میرزا غالب اور سید محمد جعفری کی ولادت کے حوالے سے خوش گوار تھا، وہاں محترمہ بے نظیر کے سانحۂ ارتحال کی بنا پر بے حال ہے۔ تیس دسمبر کو محترمہ افضل توصیف چلانا کر گئیں، جب کہ اکتیس دسمبر جو ہر سال کے انتہا پسند مقطعے کے طور پر سامنے آتا ہے، ایک سو سات سال قبل سرسید تحریک کے سب سے مؤثر رکن ، اُردو تنقید کے باوا آدم اور اُردو شاعری کی اوقات بدل دینے والے مولانا الطاف حسین حالی جیسے مردِ دانا کی مُکتی کا سبب بنا کھڑا ہے۔ اب ذرا 2021ء کی دیگر ستم ظریفیوں پہ نظر کرتے ہیں کہ یہ ظالم ہمارے علمی، ادبی، سیاسی، صحافتی چمنستان سے کتنے ہی نادر پھول نوچ کر لے گیا۔ اس کی کج ادائیوں کا سلسلہ محترمہ جنوری کے دنیا میں قدم دھرتے ہی شروع ہو گیا کہ معروف صحافی رؤف طاہر جلد باز اوپننگ بلّے باز کی مانند تین کے ترچھے تکونے ہندسے کے ساتھ ہی چلتے بنے ۔ سیٹھ عابد کہ جن کی ذات عجیب و غریب تضادات کا مجموعہ تھی، وہ ایک معروف شخصیت تھے اور ایٹمی حوالے سے پاکستان کے خیرخواہ بھی، نو جنوری کو انتقال کر گئے۔ دس جنوری کو ماہرِ لسانیات، اور لغت نویس نصیر ترابی کا سندیسہ آ گیا۔ اٹھائیس جنوری کو جماعت اسلامی کے پُرجوش رہنما حافظ سلیمان بٹ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ تیس جنوری ’رقص زنجیر پہن کر‘ کرنے والی ریاض شاہد کی بیوی اوراداکار شان کی والدہ نیلو کی روانگی کی خبر لایا۔ چار فروری کو میرے سب سے چھوٹے چچا اقبال کی سناؤنی آ گئی، جو سات بھائیوں میں ہمارے دادا کی آخری نشانی تھے۔ اسی طرح آٹھ فروری میرے شیخوپورہ کے سابق کولیگ پروفیسر صابر بخاری آنجہانی ہوئے۔ مارچ کے گھاؤ اور بھی شدید تھے کہ پہلی ہی تاریخ کو فلم ہیر رانجھا میں ونجھلی اور اداکاری سے دھوم مچانے والے اداکار اعجاز داغِ مفارقت دے گئے۔ تین مارچ کو قد آور افسانہ نگار ڈاکٹر رشید امجد جدائی کے صدمے سے دوچار کر گئے۔ پچیس فروری پاکستان ٹیلی وژن کی پہلی اناؤنسر کنول نصیر کی آواز نے کفن اوڑھ لیا۔ چھبیس کو اسی ٹی وی سے ڈراما نویسی میں منفرد مقام بنانے والی حسینہ معین سُوئے فردوس روانہ ہوئیں اور انتیس مارچ فارسی ادب میں طنز ومزاح کی تاریخ ترتیب دینے والے خواجہ حمید یزدانی کے ساتھ ہاتھ کر گیا۔ اپریل تو اپنے بڑے بھائی مارچ سے بھی زیادہ سنگ دل ثابت ہوا کہ اس میں دو تاریخ کو منفرد آہنگ کے مالک گلوکار شوکت علی ابدی خاموشی سے دوچار ہوئے۔ تین اپریل ہمارے ایف سی کالج اور دنیائے نالج کے ہر دل عزیز استاد ڈاکٹر کمال الدین کی وفات کا دن ثابت ہوا۔ چار کو ماہنامہ ’’شاعر‘‘ ممبئی کے مدیر افتخار امام صدیقی، نو کو معروف شاعر نجیب احمد، بارہ کو پاکستانی صحافت کو پر لگانے والے ضیا شاہد، چودہ اپریل یعنی یکم رمضان المبارک کو ایک طرف معروف کامیڈین سہیل احمد کے چھوٹے بھائی اور ہمارے دوست پروفیسر جنید اکرم اور دوسری جانب پاکستان میں اُردو فلموں کے کامیاب ہدایتکار ایس سلیمان جانبِ منزل روانہ ہوئے۔ سولہ کو نقاد مناظر عاشق ہرگانوی ، اٹھارہ کو شاعر فرتاش سید اور انیس کو افسانہ نگار مشرف عالم ذوقی بھی اہل ادب سے کنارہ کر گئے۔ اکیس اپریل جو قبل ازیں شاعرِ مشرق کا یومِ وصال تھا، اب بھارت کے معروف عالمِ دین مولانا وحید الدین کے چل چلاؤ کا بھی ذمہ دار ٹھہرا۔ چھے مئی بشریٰ انصاری اور نیلم احمد بشیر کی بہن سنبل شاہد، عیدالفطر سے اگلے دن انکل سرگم اور ماسی مصیبتے جیسے منفرد کرداروں کی زبان سے پھلجھڑیاں چھوڑنے اور طنز کے تیر چلانے والے فاروق قیصر اور انتیس کو میرے قریبی عزیز میاں انیس وِرک صدمے سے دوچار کر گئے۔ جون نے ہاتھ ہولا رکھا تو اس کی کسر ٹُٹ پَینے جولائی نے پوری کر دی، اس میں پانچ کو مسعود اشعر، سات کو بالی وُڈ کے بے تاج بادشاہ دلیپ کمار اٹھانوے سال کی عمر میں، آٹھ کو معروف نقاد ابوالکلام قاسمی، چودہ کو سابق صدر ممنونِ نواز شریف، معاف کرنا ممنون حسین، اکیس کو عید الضحیٰ والے دن حمید نظامی کی نشانی عارف نظامی اور پچیس کو بورے والا کے استاد شاعر محمود غزنی عالمِ بالا کو سدھارے۔ یاد رہے کہ ضیاالحق کے طیارے کے حادثے کے بعد سترہ اگست، اب طالبان کے کابل پر مکمل قبضے کے حوالے سے بھی مشہور رہے گا۔ ستمبر کی تین کو کشمیر کے حریت پسند رہنما سید علی گیلانی اکانوے سال کی عمر میں قیدِ حیات سے آزاد ہوئے۔ تیرہ کو معروف سکالر اور بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمود، چودہ کو مصنف اور جاسوس طارق اسماعیل ساغر اور بیس ستمبر کو کراچی کے مزاح نگار ایس ایم معین قریشی دیوارِ زندگی پھلانگ گئے۔ دو اکتوبر کو معروف کامیڈین عمر شریف علاج کے لیے امریکا جاتے ہوئے جرمنی میں چل بسے۔ نو اکتوبر کو اورینٹل ہی کی ایک نشانی، وولنر ہاسٹل میں ہمارے پڑوسی، اورینٹل لرننگ کے ڈین، ڈاکٹر خالق داد نہیں رہے، اسی تاریخ کو آزاد کشمیر کے سابق صدر سکندر حیات، اٹھارہ اکتوبر کو ہمارے پیارے ڈاکٹر اجمل نیازی اور انتیس کو نظم کے شاعر ڈاکٹر ابرار احمد پرلوک سدھارے۔ نومبر کی چودہ کو فنی تعلیمی بورڈکے باذوق ڈائریکٹر میاں شان احمد اور بائیس نومبر کو معروف اقبال شناس، سیرت نگار اور نعت کے محقق جناب ڈاکٹر انور محمود خالد اکاسی سال کی عمر میں بھی موت کے منھ میں چلے گئے۔ ان سب کے لیے سرمدی اُخروی زندگی کی دعائیں!!!