ثقافت کا عالمی دن 21 مئی کو منایا جاتا ہے، یہ دن 2001 ء میں افغانستان میں بامیان کے بدھ کے مجسموں کی تباہی کے نتیجے میں تشکیل میں آیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نومبر 2001 ء میں ثقافتی تنوع کے بارے میں یونیسکو کے عالمی اعلامیے کی وجہ سے اس دن تعطیل کا اعلان کیا، یہ دن ایک موقع ہے کہ برادریوں کو ثقافتی تنوع کی قدر کو سمجھنے اور ہم آہنگی میں مل کر رہنے کا طریقہ سیکھا جائے۔ جہاں ثقافت کا گلا گھونٹ دیا جائے ، وہاں انتہا پسندی جنم لیتی ہے ، پاکستان کے پس منظر کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دن سے ہی ثقافت کو پاکستان سے دور رکھنے کی کی صرف کوشش ہی نہیں کی گئی بلکہ مصنوعی تجربات کی بھینٹ بھی چڑھایا گیا اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔پاکستان میں تہذیبی و ثقافتی مکالمے کا عمل مفقود ہے، ثقافت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 2008ء میں سابق صدر آصف زرداری نے اقوام متحدہ اجلاس میں سندھی اجرک اور سندھی ٹوپی پہن کر گئے تو ان کی مخالفت کی گئی حالانکہ مخالفت کرنے والوں نے انگریزی لباس پر کبھی تنقید کی۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان مختلف قومیتوں کا گلدستہ ہے ، یہاں مختلف قومیں بستی ہیں جن کی اپنی اپنی زبانیں اور اپنی اپنی ثقافتیں ہیں ، یہاں سرائیکی ، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتون، پوٹھوہاری، براہوی، کشمیری اور دوسری قومیں آباد ہیں ، سب کی الگ زبانیں، الگ رسم و رواج اور الگ ثقافتیں ہیں ، ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کسی بھی سماج کی خوبصورتی ہوتی ہے کہ اس میں مختلف قومیں ، نسلیں رہتی ہیں ، اسی طرح جس طرح مختلف پھول اور ان کے مختلف رنگوں سے گلدستہ بنتا ہے ، اسی طرح ایک ملک کی مثال ہوتی ہے پھولوں کی خوشبو ئیں جس طرح فضا کو مہکاتی ہیں اسی طرح مختلف ثقافتیں بھی ملک کی فضا کو معطر رکھنے کا باعث بنتی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح چمن میں مختلف پرندے مختلف بولیاں بول کر چہچہاتے ہیں اسی طرح کسی بھی ملک کی خوبصورتی اس کی مختلف زبانیں بنتی ہیں۔ اگر مختلف پھولوں کی جنس ان کے رنگوں کے تنوع اور مختلف بولیوں کی چہچہاہٹ کو ختم کر کے ایک رنگ ، ایک خوشبو اور ایک زبان بنانے کی احمقانہ کوشش کی جائے تو اس کا نتیجہ مہلک ہو سکتا ہے ،یہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے قوموں کی تہذیب و ثقافت کا گلا گھونٹا گیا اور بدیسی زبانوں اور ثقافتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی جس کے مہلک اثرات مرتب ہوئے۔ بلاشبہ ثقافت سب سے طاقتور شعبہ ہے ، پوری دنیا میں پانچ کروڑ لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا کے تقریباً ایک سو غیر ثقافتی ممالک میں لڑائی جھگڑے ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں انتہاء پسندی کو ختم کرنے کے لئے انٹرنیشنل فنڈ برائے کلچرل ڈائیورسٹی نے مارچ 2022ء میں امداد دی گئی مگر یہ امداد بھی یوں سمجھئے کہ ضائع کر دی گئی جبکہ ثقافتی اقدار کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ثقافت فطرت کا نام ہے، ثقافت خالق کی تخلیق کا خوبصورت عکس ہے ، ثقافت کسی مصنوعی چیز کا نام نہیں ، ثقافت کل ہے ، مذہبی عقائد سمیت کائنات کی ہر چیز اس کا اجزا ء میں شامل ہے ،ثقافت کسی محدود چیز کا نام نہیں بلکہ یہ ہر شعبہ ہائے زندگی پر محیط ہے۔ زبان ثقافت کا ایک چھوٹا سا عنصر ہے ، اصل چیز ثقافت ہے ، ثقافت کا تعلق زمین اور مٹی سے ہوتا ہے ، عرب ، افغانستان یا بلوچستان یا سرائیکستان کے قیام زبان نہیں بلکہ خطے کی بنیاد پر ہیں، کسی بھی سٹیٹ کو ہر لحاظ سے ثقافتی ہونا چاہیے ۔ پاکستان میں جتنی بھی قومیں اور ثقافتیں ہیں ان کو ترقی کے برابر مواقع ملنے چاہئیں ، کسی بھی غیر ملکی زبان چاہے وہ انگریزی، اردو ، عربی یا فارسی ہو کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مقامی زبان کو قتل کر کے خود راج کرنے لگے، ہاں البتہ ان کو اپنے اپنے دیس اور اپنے وطن میں مکمل راج کا حق حاصل ہے۔ مقامی زبانوں اور مقامی ثقافتوں کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں جس طرح آپ کاغذ کے خوبصورت پھول بنا سکتے ہیں مگر ان سے خوشبو حاصل نہیں کر سکتے، اسی طرح کوئی بھی ایسی زبان جس کی دھرتی میں جڑیں نہ ہوں اور مصنوعی طور پر گملے میں اگائی گئی ہو اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے چاہے اس پر آپ کھربوں روپے ہی کیوںنہ خرچ کر ڈالیں ۔ زبانوں کو شاہی فرمان کے ذریعے بھی انسانوں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا، بدیسی یا مصنوعی زبان کو تو گونگے بھی قبول نہیں کرتے ، وہ انسان کس طرح کریں گے جن کو خالق کائنات نے اپنی اپنی زبانیں اور اپنی اپنی ثقافتیں دی ہیں؟اب الٹی گنتی کی بجائے گنتی کو سیدھے طریقے سے گنا جائے اور پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کے حقوق کو تسلیم کیا جائے ، ان کی ثقافتوں اور زبانوں کو اہمیت دی جائے،پاکستان میں پاکستانی زبانوں کی ترویج کی جائے ۔ اردو سے نفرت نہیں اور اردو سے جھگڑا بھی نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اردو کا پاکستان کے کسی بھی خطے سے تعلق نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں یہ زبان مصنوعی طور پر وجود میں آئی اور اسے مختلف زبانوں کا مغلوبہ قرار دیا گیا ، اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہندوستان میں ہندوستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دے کر زبان کا مسئلہ حل کیا گیا اس طرح کے اقدام کی ضرورت پاکستان میں بھی ہے۔ ثقافت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ادارے وجود میں لائے جائیں جو آرٹس اور کلچر کے اسٹرکچر کو مضبوط کریں ، پہلے سے موجود اداروں میں بہتری لائی جائے ، ملک میں ثقافتی اور تخلیقی سر گرمیوں کے فروغ کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں، مرکز اور صوبوں میں ثقافت کی وزارت کو الگ کر کے مکمل طور پر با اختیار بنانا چاہیے، تمام زبانوں اور ثقافتوں کو پھلنے پھولنے کے برابر مواقع ملنے چاہئیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے بین الصوبائی ثقافتی پروگراموں کا انعقاد ہونا چاہیے ، پاکستان میں چینی زبان سکھانے کے ساتھ پاکستان میں بسنے والے لوگوں کو پاکستانی زبانیں سکھانے کے لئے اقدامات بھی ہونے چاہئیں ۔