پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکوں کے خلاف اتحادیوں کی امداد کے بدلے عربوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ جنگ کے بعد انہیں آزاد اور خودمختار عرب علاقے سونپ دئیے جائیں گے عربوں کا مطالبہ تھا کہ فلسطین کو بھی آزاد عرب ریاست کا درجہ دیا جائے مگر جب جنگ اختتام کو پہنچی تو فلسطین کو برطانوی کنٹرول میں دے دیا گیا تو اس نے اعلان با لفور پر عملدرآمد کرتے ہوئے ان علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری شروع کر دی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو جرمنی، پولینڈ اور آسٹریا سے نکال کر فلسطین بھیجا گیا اور اس طرح ان کی عددی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ۔تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم اور ان کی جماعت مسلم لیگ نے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں جلسے جلوس منعقد کئے 1918 سے لے کر 1947 تک مسلم لیگ کونسل کے ہر اجلاس میں فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے قرارداد یں منظور کی گئیں 1937 میں جب برطانیہ نے فلسطین کی تقسیم کی تجویز کو پیش کیا توقائد اعظم نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اس کی شدید مذمت کی اور برطانیہ کو متنبہ کیا کہ عربوں سے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی پر شدید ردعمل ہو گا اور برصغیر کے مسلمان عربوں کی حمایت میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے 1944 میں آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا "اگر یہودی عناصر کے دباؤ کے تحت صدر روز ویلٹ برطانیہ کو فلسطین کے سوال پر عربوں سے نا انصافی کرنے پر مجبور کر تے ہیں تو یہ فیصلہ مسلم دنیا کے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آگ لگا دے گااگر یہودیوں کی آباد کاری جاری رہی تو پوری اسلامی دنیا کے عوام اس ناجائز قبضہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے "آج قائد اعظم کی یہ پیش گوئی حرف بحرف درست ثابت ہو رہی ہے ۔ 1947 میں اقوام متحدہ کے ارکان ممالک 56 تھے مسئلہ فلسطین پر غور کرنے کے لیے ایک سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چئیرمین پاکستان تھا افعانستان اور چھ عرب ریاستوں کو بھی کمیٹی میں رکھا گیا کمیٹی نے فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کر تے ہوئے وحدانی نظام کا طریقہ تجویز کیا اور کہا کہ فلسطین میں موجود یہودی اقلیت سے مناسب سلوک کی ضمانت حاصل کی جائے گی اور باہر سے آنے والے یہودیوں کو یورپ کے مختلف ممالک میں بسانے کا بندوبست ہونا چاہیے یا وہ اپنے آبائی علاقوں میں واپس بھیج دئیے جائیں کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے فلسطین کی تقسیم کا حل بے حد غیر منصفانہ اور مستقل عذاب قرار دیا۔قائد اعظم نے امریکی صدر ہنری ٹرومین کو ٹیلی گرام بھیجا کہ وہ عربوں کو ان علاقوں سے محروم نہ کریں جہاں وہ دو ہزار سال سے رہ رہے ہیں اکتوبر 1947 میں قائد اعظم نے رائٹر کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ مغربی ممالک تقسیم کے منصوبے کو اصولی بنیادوں پر مسترد کر کے کوئی منصفانہ حل تلاش کریں گے کیونکہ فلسطین کی تقسیم کا حل تاریخی، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہے 27 اگست 1947کو قائد اعظم نے کہا کہ پاور پالیٹکس کا جو ڈرامہ فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں سٹیج کیا جا رہا ہے انصاف پسند اقوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ 1974میں اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوئی تو پاکستان نے بطور میزبان فلسطین کے سوال کو خوب اٹھا یا اور قرارداد منظور کروائی کہ 1_عرب علاقے اسرائیل قبضے سے آزاد کرے 2_بیت المقدس کا حقیقی درجہ بحال کیا جائے 3_پی ایل او کو فلسطینی قوم کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے۔ لاہور کی اسلامی کانفرنس میں یاسر عرفات تشریف لائے تو پاکستان کے عوام نے ان کو خوب پذیرائی س کی اور سربراہ مملکت کے طور پر ان کو پروٹوکول دیا گیا۔ اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے علامہ اقبال کے جذبات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 1937 میں ہی واضح کر دیا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کے مضمر ات پوری اسلامی دنیا میں مرتب ہوں گے فلسطینی عوام کی حمایت کرتے ہوئے 1948 سے لے کر 1973 کی عرب اسرائیل جنگوں میں فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے بین الاقوامی سطح پر انصاف کے لیے کوششیں کیں پاکستان نے ہر موقع پر فلسطین کو مکمل مادی اور فوجی امداد کی پیشکش کی مادی امداد فراہم کرنے میں الخدمت بھرپور کوشش کر رہی ہے مگر غزہ کے مظلوم عوام کے لئے پاکستان سمیت ہر ملک کو ایران کی تقلید کرنی ہوگی۔اگر امریکہ اسرائیل کی بھرپور فوجی امداد کر رہا ہے تو پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو بھی مظلوم فلسطینی عوام کو اپنے تحفظ کے لیے سیاسی اور اخلاقی امداد کے علاوہ فوجی امداد بھی فراہم کر نا ان کا اولین فریضہ ہے آخر وہ بیت المقدس کے غاصبانہ قبضے کے خلاف برسر پیکار ہیں جو دنیا کے تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔29 جنوری 1976 کو فلسطین کے مسئلہ کی اہمیت کو ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ اسطرح بیان کیا جو آج بھی مسلمہ حقیقت ہے "سوال یہ ہے کہ عرب مسئلے کا مرکز کہاں ہے؟ مرکز نہ مصر ہے، نہ الجیریا، یا سوڈان ہے اور نہ ہی پاکستان عرب اسرائیل مسئلے کا مرکزی مقام فلسطین ہے ۔فلسطینی عوام کابنیادی مسئلہ ہیں فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام ہے" پاکستانی عوام کشمیر کے مسئلے کے ساتھ فلسطین کے مسئلے کو بھی اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور کسی بھی قیمت پر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے جہاد پر آمادہ ہیں مگر افسوس صد افسوس مسلم ممالک کی بے حمیتی پر ہے کہ چالیس ممالک کی اسلامی فوج کیا ۔صرف ایران اور یمن کے مسلمانوں کے خلاف بنائی گئی ہے جب کہ پوری مغربی دنیا اور امریکہ بہادر خم ٹھوک کر اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ غزہ کے مظلوم عورتوں، بچوں اور جوانوں کو شہید کیے جا رہے ہیں مگر مسلم دنیا کے حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے منتظر فردا ہیں انہیں کب احساس ہوگا "غیرت ہے بڑی چیز اس جہان تگ و دو میں" ٭٭٭٭